اسد عمر کا استعفی


چہ میگوئیاں تین چار روز سے جاری تھیں کہ تحریک انصاف کے معاشی افلاطون اسد عمر صاحب کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ حکومتی وزراء اس خبر کو نہ صرف خود رد کرتے رہے بلکہ خبر دینے والے صحافیوں کو پیمرا کی طرف سے نوٹس بھی بھجوائے گئے۔ اسی باعث درویش کو کھل کر اپنی رائے بیان کرنے کی ہمت نہ ہوئی مگر پچھلے کالم میں ڈھکے چھپے لفظوں میں حکومتی تقسیم اور معاشی پالیسیوں کے باعث اسد عمر پر آنے والے وبال کا کچھ ذکر ضرور کیا۔

اس بات میں شک نہیں پچھلے آٹھ ماہ میں نا اہلی اور نا تجربہ کاری کے سبب ملکی معیشت کا جو بیڑا غرق ہوا اس کی نظیر ڈھونڈنی مشکل ہے۔ اس عرصے میں روپے کی قدر میں چالیس فیصد کمی واقع ہوئی۔ گیس قیمتوں میں ایک سو چالیس فیصد اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح دس فیصد کے قریب پہنچ گئی۔ جی ڈی پی گروتھ میں ریکارڈ تنزلی ہوئی۔ بیروزگاری کی شرح میں بے محار اضافہ ہوا۔ ترقیاتی اخراجات بھی مکمل بند کر دیے گئے۔ پھر بھی حکومتی قرضے میں اتنی کم مدت میں سات ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔

اس کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے، محض اسد عمر سے خزانے کی کنجی واپس لینے سے حالات بہتری کی طرف چل پڑیں گے؟ اقتدار میں آنے سے قبل اور بعد میں بھی تحریک انصاف کی قیادت نے جو پالیسی اختیار کی اور جس قسم کی غیر حقیقی باتیں جاری تھیں ان کے ہوتے کوئی بھی شخص اس وزارت میں ہوتا معیشت کا یہی حال ہونا تھا۔ معاشی بدحالی کا بڑا سبب کوئی واضح اقتصادی پالیسی نہ ہونا اور نا گزیر فیصلوں میں تاخیر بھی تھا۔ مثال کے طور پر حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے میں تذبذب اور گومگو کا شکار رہی۔

جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑا اور جب بالکل پانی سر سے گزرا تو کمزور پوزیشن پر جا کر وہی در کھٹکھٹانا پڑا جس سے حکومت پہلے گریزاں تھی۔ حالانکہ ایک جاہل شخص بھی علم رکھتا تھا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن وقت پر اس فیصلے سے گریز کی ذمہ داری اسد عمر پر عائد کرنا زیادتی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ خود عمران خان صاحب ہیں، کیونکہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل بارہا یہ فرماتے رہے عالمی اداروں سے قرض حاصل کرنا ملکی خودمختاری گروی رکھنے کے مترادف ہے۔

وہ اگر وزیراعظم ہوئے تو کشکول اٹھانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ بعدازاں اپنے بیانات سے پھرنے اور اپوزیشن کی طرف سے تھوکا چاٹنے کے طعنوں سے بچنے کے لیے تاخیر کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ جواز یہ پیش کیا جاتا رہا آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہمیں منظور نہیں، لہذا مذاکرات جاری ہیں۔ حالانکہ جو شرائط مالیاتی ادارے کی طرف سے متوقع تھیں، وہ پیشگی حکومت پوری کرتی رہی۔ جس میں روپے کی تنزلی، گیس بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھا۔

اسد عمر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نئے آنے والے وزیر خزانہ کو بھی مشکل حالات کا ہی سامنا ہو گا۔ ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے آنے والے دنوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ ملکی معیشت اور حالات میں بگاڑ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی توجہ کارکردگی کے بجائے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں تک محدود ہے۔ ہر وزیر مشیر اپنا اصل قلمدان چھوڑے نیب اور دیگر احتسابی اداروں کی ترجمانی میں مصروف ہے۔

حد تو یہ کل بھی وزیر برائے آبی وسائل سے اسد عمر کے استعفی کے وجوہات جاننے کی کوشش ہوئی تو وہ اس کا جواب دینے کے بجائے سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں پیسے کی ترسیل کے دستاویزی شواہد لہراتے رہے۔ ملک پر طاری معاشی جمود اور بازاروں کی ویرانی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ غیر یقینی اور خوف کی فضا کے باعث سرمایا کار اپنا پیسہ یہاں سے نکال کر بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں۔ پارلیمانی اور جمہوری نظام میں ون مین شو نہیں ہوا کرتا۔ لہذا اسد عمر کی بات جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ نئے آنے والے وزیر خزانہ کو بھی یہی شعلہ بدہن کولیگز میسر رہے تو وہ بھی کوئی معجزہ نہیں دکھا پائے گا۔

حکومت مسلسل آٹھ ماہ کارکردگی پر سوال سے فرار حاصل کرنے کے لیے پچھلے دو ادوار پر لعن طعن سے کام چلاتی رہی۔ بہرحال اسد عمر کی تبدیلی کے بعد حکومت کے پاس اب یہ جواز بھی باقی نہیں رہا۔ اب پچھلے آٹھ ماہ میں ملکی معیشت کو ہونے والے نقصان کا جواب حکومت کو ہی دینا پڑے گا، اب مزید یہ ماننے پر کوئی تیار نہیں ہو گا کہ معاشی پالیسیز درست تھیں۔ کیونکہ اگر یہ درست ہوتی تو پھر عمران خان صاحب کو اپنے ہونہار اور دیرینہ ساتھی کی بھینٹ دینے کی کیا ضرورت تھی۔

عمران خان کو اسد عمر کی صلاحیتوں کے بارے جتنا زعم تھا اور ان کے متعلق جو فرمودات تھے، محظ ان سے قملدان واپس لینے سے معیشت کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ سے وہ خود جان نہیں چھڑا سکتے۔ چند روز قبل تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین بھی اسد عمر کی کارکردگی پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔ کل کی پریس کانفرنس میں صحافی کی جانب سے اسد عمر سے یہ سوال بھی ہوا کہ وہ کسی سازش کا شکار تو نہیں ہوئے؟ واضح رہے کہ تحریک انصاف میں تقسیم اور گروپنگ موجود ہے اور اسد عمر جہانگیر ترین کے مخالف گروپ میں تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کو ہٹانے کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو، تاثر یہ لازما پیدا ہو گا کہ وہ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کا شکار ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت پہلے ہی معمولی اکثریت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، ایسے میں یہ تاثر حکومت کے مورال، کارکردگی اور وجود پر مزید برا اثر ڈالے گا۔

پس تحریر! کل سارا دن میڈیا پر اسی خبر کا چرچہ رہا۔ جبکہ اسی دوران بلوچستان میں کوسٹل ہائی وے پر دہشتگردوں نے ایک مرتبہ پھر معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے نشانہ بنا دیا۔ جتنا وقت اسد عمر کے استعفی کی وجوہات جاننے میں لگا، میڈیا کو اس کا عشر عشیر بھی بلوچستان میں گزرنے والی قیامت پر صرف کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ بلوچستان ایک ایسا آتش فشاں ہے جو فوری اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے اور اگر دیر ہو گئی تو خاکم بدہن بہت بڑے المیے کا اندیشہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے اس آگ کے سلگنے کی جو وجوہات ہیں، اور مداوے کے لیے جو اقدامات ہو سکتے ہیں ان پر بات کرنے کی اجازت تک نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).