بے حسی کی حدیں پارنہ کریں


ایک نہیں پورے 14 جیتے جاگتے انسانوں کو بسوں سے اتارا گیا، ان کو شناخت کیا گیا، لائن سے کھڑا کیا گیا اور سفاکی کے ساتھ گولیاں مار کر شہید کردیا گیا لیکن ایسا لگا جیسے وہ انسان نہیں بلکہ مکھی مچھر تھے جن کو ہلاک کردیا گیا۔ خبروں کے مطابق بلوچستان کے ضلع گوادر میں مکران کوسٹل ہائی وے پر نامعلوم مسلح افراد نے 14 مسافروں کو شناخت کرکے بسوں سے اتارنے کے بعد قتل کردیا۔ مقتولین میں اکثریت سیکورٹی اہلکار وں کی تھی۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اس سے کہیں بڑھ کر سفاکیت یہ ہوئی کہ پاکستان کا میڈیا سارا دن حکومتی سطح پر شہید اور زخمی ہوجانے والے اُن وزرا کا سوگ مناتا رہا جن کو یا تو وزارتوں سے فارغ کردیا گیا تھا یا ان کے محکمہ جات تبدیل کردیئے گئے تھے۔ یہ ہلاک ہو زخمی ہونے والے وزرا اتنی اہمیت اختیار کرگئے کہ رات گئے جتنے بھی ٹاک شوز ہوئے اُن میں اُن ہی کی ہلاکت اور گھائل ہونے کا ہی چرچہ رہا لیکن جن انسانوں کو بے دردی کے ساتھ بسوں سے اتار کر شہید کیا گیا ان کی شہادت اور سفاک قاتلوں کا ذکر دور دور کہیں بھی سنائی نہیں دیا۔ پاکستان کے میڈیا کا یہ رویہ کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ بڑے سے سے بڑا سانحہ بھی ہماری پیشانیاں پُر شکن نہیں ہونے دیتا۔

حکومت میں اس قسم کی تبدیلیاں اور وزارتوں کی الٹ پھر ہوا ہی کرتی ہے۔ یہ تو چند وزارتوں کی ”پھینٹیوں“ کی بات ہے، پاکستان میں تو وزارت عظمیٰ بھی اتنی غیر اہم ہے جس کو بیک جنبش قلم یا بزورِ شمشیر بدلا جاسکتا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے یہی تماشا دیکھنے میں آرہا ہے۔ پوری پوری حکومتوں اور ان کی کابیناؤں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے اور اس سے نہ تو آئین پاکستان پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کی خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے۔

دور کیوں جایئے، مشرف دور میں ان کا اپنا ہی وزیر اعظم، جمالی، ہٹادیا گیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں چوہدری شجاعت کا نام بھی پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ پھر ان پر بھی مکمل بھرسہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں عبوری دور تک ہی محدود رکھا گیا۔ ایک درآمد شدہ فرد کو الیکشن لڑوایا گیا اور یوں پورے پاکستان کی وزارت عظمیٰ شوکت عزیز کے نصیب میں لکھ دی گئی۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی جانب سے یہ شور بلند ہوا کہ پرویز مشرف کی حکومت ناکام ہوگئی، ان کے اپنے منتخب وزرئے اعظم نالائق نکلے یا یہ کہاگیا کہ پرویز مشرف ایک ناکام اور نا اہل سالار تھے؟

جب اس وقت اتنی اہم ذمہ داریوں پر متمکن عہدیداروں کو یک بعد دیگرے تبدیل کیے جانے پر بھی کوئی غلغلہ بلند نہیں ہوا تو عمران خان کی حکومت میں اگر چند وزرا کو ان کے عہدوں سے باہر کردیا گیا یا ان کے محکموں میں ردوبدل عمل میں لایا گیا تو ایسا کیوں لگا جیسے پورے پاکستان میں زلزلہ آگیا ہے اور اس کے جھٹکے اتنے شدید ہیں کہ وہ 14 بے قصور افراد جن کو باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد بسوں سے اتارا گیا اور پھر بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیا گیا، ان کا ذکر کرنا تک بھول گئے۔ اس سے جو بات ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حکومتوں کی شکست و ریخت اتنی اہمیت کی حامل ہے جس کے آگے بے گناہوں کا بہتا اور ابلتا خون بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

بلوچستان میں بسوں سے اتار کر اور شناخت کرنے کے بعد لوگوں کو ہلاک کردینا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اگر اس کو معمول کی کارروائی بھی کہہ دیا جائے تو بیدردانہ بات نہیں ہوگی۔ جن سڑکوں پر ایسا ہوجانا اور لوگوں کو بسوں سے اتار کر اسی طرح ماردیا جانا اور ان میں سے اکثر ان کے عزیز و اقارب اور بیوی بچوں کے سامنے قتل کردینا معمول ہو وہاں مسافروں کے تحفظ کا کوئی انتظام مستقل بنیادوں پر نہ کیا جانا خود ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سفاکانہ کارروائی ہوجائے تو رد عمل کے طور پر کوئی نہ کوئی واقعہ ان ہی دنوں میں ضرور ظہور پزیر ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے سیکیورٹی ادارے الرٹ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے ایسے خدشات ٹل جاتے ہیں جو کسی اور سانحے کا سبب بن سکیں۔ بلوچستان میں دودن قبل ہی دہشتگردی کا ایک بھیانک واقعہ ہوچکا تھا اور اس بات کا امکان موجود تھا کہ اس کا رد عمل کہیں نہ کہیں ضرور سامنے آئے گا۔ جب ایسا ہوجانا انہونی نہیں تھا تو آخر غفلت سے کام کیوں لیاگیا؟

باخبر ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے بھیس بدلنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں اور ان کی تعداد 40 سے زائد تھی۔ عینی گواہوں نے بتایا کہ مکران کوسٹل ہائی وے کے جس مقام پر واقعہ پیش آیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اورحملہ آورواردات کرنے کے بعد پیدل پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے۔ اتنی بھاری تعداد میں قاتلوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا۔ پھر بسوں کو روکنا، پھر نہایت اطمنان اور سکون کے ساتھ افراد کو شناخت کرکے بسوں سے اتارنا اور پھر ان کو قتل کرکے فرار ہوجانا کسی فلم کا سا منظر لگتا ہے۔ یہ تمام عرصہ کوئی چند سیکنڈوں کا تو رہا نہیں ہوگا۔ اس سارے عرصے میں کسی کا بھی وہاں سے گزر ہی نہیں ہونا ناقابل فہم اور سیکیورٹی کی مکمل ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

آج اخبارات میں بھی وزاتوں کے ردوبدل کو تو سب سے بڑی شرخی میں دیکھا گیا لیکن بے گناہ انسانوں کے قتل کی خبر کو دوسرے یا تیسرے درجے کی خبر کے طور پر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جس قوم میں بے حسی اس مقام پر پہنچ جائے اس کے حق میں دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔

جب ہم دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات دنیا کی نظر میں اس لئے مؤثر نہیں ہوپاتی کہ خود ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مارے جانے کی تعداد بھارت میں یا دنیا میں ستائے جانے اور مارے جانے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جب تک ہم اپنے ملک میں سفاکانہ وارداتوں پر قابو نہیں پائیں گے اور وزارتوں کے ماتم کو انسانوں کی ہلاکتوں پر مقدم سمجھتے رہیں گے، دنیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر ہماری چیخ و پکار کا کوئی بھی اثر ہر گز قبول نہیں کرے گی۔ اگر دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کرانا ہے تو پاکستان کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).