پہن سنھری چولہ دھرتی بنی دلہن


زمین کی یہ دلہن آج کل سنہری اوڑھنی اوڑھے سجی بیٹھی ہے۔ اس دلہن کو سہاگن کی طرح سجانے میں گھر والوں کی سخت محنت کارفرماہوتی ہے۔ آنکھوں میں خواب سجا ے اس کا مالک اپنی محنت کا پسینہ نچوڑ کر اس کی آبیاری کرتا ہے۔ اور جیسے ہی یہ دلہن زمین کا سینہ چیر کر باہر نکلتی ہے تو اس کے ہری ہری باریک بالیں کسان کے پسینے کی خوشبو کو ہر سو پھیلا کر فضا کو معطر کر دیتے ہیں۔ تمام گھر والے ا س کے جوان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں کو بھی جوان ہوتا دیکھتے ہیں۔

ہر گوشے کے ساتھ ان کی امید کا دھاگا بندھا ہوتا ہے۔ گھر کی دیواریں اونچی کرنی ہوں، بیٹے کا داخلہ جانا ہو یا بیٹی کو رخصت کرنا ہواس سے ہی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ دلہن سال میں دو مرتبہ تیار ہوتی ہے، خریف کے ٹھنڈے موسم کے شروع ہوتے ہی اورربیع کی سردی کے اختتام پر گرمیوں کو آغاز میں۔ دونوں موسموں میں اس کی سج دھج دیکھنے والی ہوتی ہے۔ لیکن گرمی میں اس کے حسن پر نظر نہیں ٹکتی اور اس کی خوشبو مسحور کن ہوتی ہے۔

بال بال موتی چمکاے، روم روم مہکار۔ اور اسی موسم میں یہ اتنی فراخ دل ہوتی ہے کہ وہ اس کو سجانے والوں، باراتیوں، ڈھول تاشے بجانے والوں، دن رات اس کے ساتھ جاگ کر مزدوری کرنے والوں کی خدمت کرتے وقت بالکل نہیں شرماتی۔ اس دلہن کی جو ڈولی اٹھاتا ہے یہ اس کے ہاتھوں کو بھی سرخ مہندی سے سجا دیتی ہے۔ اور رخصتی کے بعد بھی یہ اتنا سونا زمین پر بکھیرتی جاتی ہے کہ انسانوں کے علاوہ، پرندے اور چیونٹیاں بھی کئی دن تک اس کو اٹھا اٹھا کر اس سونے سے اپنے گودام بھر لیتی ہیں جو آنے والے جاڑے کے سخت موسم تک ان کے کام آتا ہے۔

یہ دلہن آج پھراپنی سیج سجاے اس انتظار میں ہے کہ اس کا دلہا، کسان جس کے لئے یہ سنوری ہے اور جس نے اس کو سجانے میں نسل در نسل پورے خاندان کے ساتھ مل کر محنت کی، کب اس سے حظ اٹھاے گا۔ کب اس کی قسمت میں ہوگا کہ دلہن کو اپنی مضبوط، طاقتور بانہوں میں لے کر یہ خوشی خوشی جھومے گا۔

لیکن پنجاب اور سندھ سے لے کر بلوچستان اور پختون خواہ کے میدانی علاقوں کی یہ دلہن اس سال بہترین موسم سے سجتی سنورتی، آج جب پیا کے گھر جانے کو تیار ہے تو اس کے سسرال نے اس کی بارات لانے کی کوئی تیاری نہیں کی۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں کٹائی شروع ہے اور باقی علاقوں میں اگلے کچھ دنوں میں شروع ہوجاے گی۔ حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے کا کوئی پروگرام نہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے گندم کی خریداری کا آغاز 21 اپریل سے کرنے کا کہا ہے جب کہ ان کے اپنے اضلاع میں کٹائی یکم اپریل سے جاری ہے۔ پنجاب کے محکمہ فوڈ نے باردانہ کی درخواستیں وصول کرنے کی تاریخ 8 سے 17 اپریل دی ہے، اور اس کی تقسیم 22 اپریل سے شروع کرنے کا کہا ہے۔ اس مرتبہ عام طور پر فی ایکڑ پیداوار 40 سے 50 من یا اس سے زائد ہوگی اور ایک ایکڑ پر حکومت وقت نے صرف دس عدد بیگ دینے کا وعدہ کیا ہے جس کا مطلب ہے حکومت صرف ساڑھے بارہ من فی ایکڑگندم خریدے گی اور اس کے حصول کے لئے بھی رشوت سفارش کے ساتھ ساتھ دو سے تین دن گوداموں کے سامنے ذلیل ہونے کی رسوائی بھی برداشت کرنا ہوگی۔

یوسف رضا گیلانی نے مارچ 2008 میں حکومت سنبھالتے ہی گندم کی سپورٹ قیمت تین سو کے اضافہ کے ساتھ 1200 روپے فی من مقرر کی۔ اس کے بعد سے اب تک اس کی قیمت میں صرف ایک سو روپے کا اضافہ ہو سکا اور اس بار بھی قیمت 1300 روپے فی من ہی ہے اس سال بیج، کھاد، بجلی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ان پر دی جانے والی چھوٹ ختم کی گئی۔ اور قیمت وہی۔ انڈیا میں اگر دیکھا جاے تو اس کے کسان کو یہ تمام سبسڈیز مل رہی ہیں اور ادھر گندم پاکستانی روپے کے حساب سے 1600 روپے فی من بک رہی ہے۔

اور اس پر مستزاد یہ کہ ہماری حکومت کی غلط اور بے وقت پالیسیوں کی وجہ سے بازار میں اس کی قیمت اصل سے بھی کم ہے۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ پچھلے سال کی گندم سے گودام بھرے پڑے ہیں اور کافی ابھی بھی گوداموں سے باہرکھلے آسماں کے نیچے پڑی ہوئی ہے۔ حکومت زر مبادلہ کی کمی کا شکار ہے لیکن گندم کوبرآمد کر کے اس میں اضافہ کا آسان ذریعہ بھولے بیٹھی ہے۔ اس سال کی گندم کہاں سٹور ہوگی؟ کسان مجبوراً اپنی سال کی محنت اونے پونے داموں ملوں کے مالکوں اور آڑھتی کے ہاتھ بیچے گا۔ کسان کا سارا دارومدار ربیع اور خریف کی فصلوں پر ہوتا ہے۔ اس کے فوراً بعد چاول اور کپاس کا سیزن شروع ہوگا۔ حالت اس کی بھی وہی ہے۔

یہ فصلیں ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کو لوٹنے کے لئے ہی کچھ سالوں کے بعد کوئی نہ کوئی لٹیرا شمال سے اتر آیا کرتا تھا۔ اور اس کی لوٹ مار کے باوجود اگلے سال کی نئی دلہن پھر خوشحالی کے دروازے کھول دیتی تھی۔ ان کو ہی سنبھالنے کے لئے انگریز نے پورے ملک میں منڈیوں اور ریلوے لا ئنوں کے جال بچھا دیے تھے۔ اور ہندوستان سے لے کر انگلستان تک دولت کی فراوانی ہی فراوانی ہو گئی تھی۔ اب نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اس پر محنت کرنے والا، اس میں ہل چلانے والا اور فصل اگانے والا کسان، جب اس کو تیاری کے بعد بازار میں لے کر آتا ہے تو حالات ایسے کر دیے جاتے ہیں کہ اس کے ارمانوں کا خون ہو جاتا ہے۔

بھلے وقتوں میں کسی نے کسان کی بیوی کو کہا کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے تو اس نے انکار کردیا اور کہا، ”پہلے بھی میں ایک گھڑا گندم دے کر ایک سوٹ خرید لاتی تھی اور اب بھی۔ “ لیکن آج تو اس سے وہ بوڑھی ایک ڈوپٹہ بھی نہیں خرید سکتی جس سے وہ اپنے گرد آلود سر کو ڈھانپ لے۔ کسان جب فصل بیچنے بازار آتا ہے تو اسے کم سے کم قیمت ملتی ہے۔ صرف ایک دو ما ہ کے بعد ہی اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس سے آڑھتی، سرمایہ دار اورملوں کے مالک منافع کما لیتے ہیں۔

حکومت کی اس طرح کی حرکتوں سے بڑے بڑے سرمایہ دا ر تو فائدہ اٹھا جاتے ہیں لیکن دلہن کو سجانے سنوارنے والے اس کا صرف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اور پہن سنہری چولہ یہ دھرتی جب دلہن بن جاتی ہے توحاکم وقت اس کے ارمانوں کا خون کرنے والوں کے ساتھ مل جاتا ہے۔ پنجاب کی دھرتی کے وارث، وارث شاہ نے اسی دکھ کا بیان کیا تھا۔

اس زمین نوں واندیاں ملک مکا، اتے ہو چکے بڈے کارنے نی

کانوں ہور تے راہک نے ہور اس دے، خاوند ہور دم ہورنا مارنے نی۔

اس زمین پر ہل چلاتے چلاتے نسل در نسل قوموں نے محنت کی ہے۔ اس کے باوجود ان پر بہت سے مظالم ڈھاے گئے۔ اس کو سجانے سنوارنے والے اور ہیں اور اس سے فائدہ کوئی اور اٹھا جاتا ہے۔ اس دلہن کا خاوند کوئی اور ہے اس سے لطف اندوزکوئی اور ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).