احتیاط کریں: آگے بی آر ٹی جاری ہے !


تنقید دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ اور کام کرنا، کارکردگی دکھانا، کسی غلطی کو سدھارنا، کسی منصوبے کو خیال سے حقیقت تک لے جانا، جان جوکھوں کا کام ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت ہماری موجودہ برسراقتدار پارٹی تحریک انصاف کی ہے۔ صاف چلی، شفاف چلی کے نعرے کے ساتھ سیاست کے میدان خار زار میں قدم رکھنے والی اس پارٹی نے جہاں دیگر بدعات کو ہماری قومی سیاست کا حصہ بنایا وہیں بنا کسی ثبوت، بغیر سوچے سمجھے، بلا تحقیق ہر حکومتی کام میں کیڑے نکالنا، ہر پراجیکٹ کو کرپشن، نا اہلی، اقربا پروری کا منبع قرار دینا بھی تحریک انصاف کا طرہ امتیاز رہا ہے بلکہ ہے۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف منصوبوں کو برق رفتاری سے مکمل کروانے کا خاص ملکہ رکھتے تھے۔ ان کی اسی صلاحیت کو سراہتے ہوئے دوست ملک چین نے پنجاب سپیڈ کی اصطلاح رائج کی۔ لیکن ہماری موجودہ ممدوح حکومت جو اس وقت اپوزیشن میں تھی۔ ان ترقیاتی منصوبوں کو سراہنے کی بجائے ان کو کرپشن، کک بیکس، دوست نوازی اور اقربا پروری کا گڑھ قرار دیتی تھی

یوں تو تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہر ترقیاتی منصوبے پر اعتراض تھا۔ لیکن بطور خاص جس منصوبے کو لگاتار تنقید، تضحیک، ٹھٹھے کا نشانہ بنایا گیا وہ میٹرو بس منصوبہ تھا۔ جسے کبھی جنگلہ بس قرار دیا گیا۔ کبھی کہا گیا کہ اس میں اتفاق فونڈری کا سریا استعمال ہوتا ہے اس لیے ان کو میٹرو بنانے کابہت شوق ہے۔ عمران خان صاحب نے بارہا قوم کو اس ارشاد عالیہ سے سرفراز فرمایا کہ قومیں میڑو سے نہیں بنتیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ ٹی وی کیمروں کے سامنے میٹرو بس سروس کی مخالفت کرتے ہوئے اس عزم صمیم کا اظہارکیا کہ وہ اپنے زیر حکومت صوبہ خیبر پختونخواہ میں کبھی بھی اس طرح کا منصوبہ نہیں بننے دیں گے۔

لیکن پھر پتا نہیں ان کو کس نا ہنجار نے اپنے اصولی موقف کے برخلاف بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے نام سے وہی میٹرو بس سروس بنانے پر مجبور کر دیا جس کی مخالفت میں انہوں نے دفتر کے دفتر سیاہ کیے تھے۔ اس پر اہل فارس کی زباں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ چوں کند دانا، کند ناداں۔ لیک بعد از خرابئی بسیار ( ناداں شخص بھی خاصا نقصان اٹھانے کے بعد بالآخر وہی کام کرتا ہے جو عقل مند شروع سے کر رہا ہوتا ہے )

خان صاحب کی کے پی کے حکومت نے اکتوبر 2017 میں 27 کلومیٹر طویل بی آر ٹی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور 49 بلین روپے کی لاگت سے مئی 2018 تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کا عندیہ دیا۔ اس منصوبے میں 255 بسیں چلائی جانی تھیں۔ بی آر ٹی پر کام شروع ہوا تو پتا چلا کہ اس کی پلاننگ میں کئی خامیاں رہ گئی ہیں۔ جن کی وجہ سے بار بار تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ مئی 2018 کی ڈیڈ لائن قریب آئی تو پتا چلا ابھی تو کافی کام پڑا ہے اور کئی قسم کے بہانے بناتے ہوئے اس منصوبہ کی تاریخ تکمیل کو 23 مارچ 2019 تک بڑھا دیا گیا۔

اور پشاور کے عوام کو تسلی دی گئی کہ 23 مارچ کو بی آر ٹی کا افتتاح ہو جائے گا اور ان کو ٹریفک میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ ختم ہو جائیں گے۔ لیکن 23 مارچ 2019 سے پہلے ہی پتا چلا کہ مبینہ طور پربس اسٹیشن چھوٹے بن گئے ہیں اور ان میں سے بس نہیں گزر سکتی۔ اس پر عوام الناس نے سوشل میڈیا پر ایسے ایسے مشوروں سے کے پی کے حکومت کو نوازا کہ الامان، الحفیظ۔ چند روز قبل بارش ہوئی تو پانی جمع ہونے پر بھی منچلوں نے خوب دل کی بھڑاس نکالی۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 23 مارچ کو لانچ ہونیوالی بی آر ٹی پہلے فل کی بجائے سافٹ لانچنگ پر شفٹ ہوئی اور اب ٹیسٹ ڈرائیو تک محدود ہوچکی۔ وزیر اعلی کے پی کے نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی ہے کہ ان کو غلط بریف کیا گیا تھا۔ اور ان کو عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاریخ تکمیل کو آگے کرنے، ڈیزائن میں بار بار تبدیلی سے منصوبے کی قیمت ابتدائی تخمینے 49 بلین روپے سے بڑھ کر 69 بلین تک پہنچ چکی ہے۔

جبکہ شہباز شریف حکومت نے۔ 7 28 کلومیٹر طویل لاہور میڑو بس 30 بلین کی لاگت سے تقریبا 23 ماہ میں مکمل کی تھی۔ پشاور بی آر ٹی کی اگلی تاریخ تکمیل سال رواں کے نومبر، دسمبر رکھی گئی ہے۔ جبکہ 255 بسوں میں سے ابھی تک 20 بسیں خریدی گئی ہیں۔ لگتا ہے کہ ہماری ممدوح پی ٹی آئی اور ان کے عبقری لیڈران کرام کو معلوم پڑ گیا ہو کا کہ کام کرنے اور باتیں کرنے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خواب اور حقیقت میں، تنقید کرنے میں صرف زبان ہلانا پڑتی ہے۔ جبکہ خود کوئی کام کرتے ہوئے دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کے پی کے حکومت پورے اخلاص سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے کو شاں ہے۔ لیکن منصوبہ تو ادھورا ہے۔ اب اگر اپوزیشن ان پر کرپشن کا الزام لگائے تو ان کو کیسا لگے گا؟ ان کو نا اہل کہے تو کیسا ہو؟

امید کی جانی چاہیے کہ یہ منصوبہ تیسری ڈیڈ لائن تک مکمل ہو جائے گا۔ اس وقت تک پشاور اور پورے ملک کے عوام انتظار فرمائیں۔ اور اس بورڈ کو پڑھیں۔ احتیاط فرمائیں۔ آگے بی آر ٹی جاری ہے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).