زوال پذ یر معیشت۔ خدا خیر کرئے!


تعلیم کا ایک نظریہ غیر رسمی تصور تعلیم کا ہے۔ یعنی وہ علم یا سوجھ بوجھ جو انسان درس گاہوں کی نصابی تعلیم سے ہٹ کر گھر، معاشرے، سماجی ماحول اور اپنے تجربات و مشاہدات سے حاصل کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غیر رسمی تعلیم، درس گاہوں کی نصابی تعلیم سے کہیں زیادہ گہرا نقش چھوڑتی اور بڑی دیر پا ہوتی ہے۔ آج کل میڈیا (بشمول سوشل میڈیا) اس غیر رسمی تعلیم کا نہایت ہی موثر آلہ بن چکا ہے اور اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ غیر رسمی تعلیم میں بھی کسی حد تک رسمی تعلیم کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔

مجھے تعلیم کے اس قدیم تصور کا خیال اس لئے آیا کہ آج کل غیر رسمی تعلیم نے پوری قوم کو معاشیات کا با قاعدہ طالب علم بنا دیا ہے۔ ایک عام شہری بھی سمجھنے لگا ہے کہ ملک کی اکانومی کس طرف جا رہی ہے۔ معاشیات سے دور کا تعلق نہ رکھنے والے، کسی حد تک خواندہ لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ افراط زر، جی۔ ڈی۔ پی، اسٹاک ایکسچینج، آئی۔ ایم۔ ایف وغیرہ کن بلاوں کے نام ہیں۔ ہماری قومی سیاست پر معیشت پوری طرح غالب آچکی ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ تمام تر ملکی اور غیر ملکی جائزوں کے مطابق ہم تیزی سے معاشی زوال کی جانب گامزن ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے آٹھ ماہ ہونے کو ہیں۔ عمومی خیال یہ تھا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پی۔ ٹی۔ آئی نے اچھا خاصا ہوم ورک کر لیا ہو گا۔ عمران خان نے قوم سے عظیم انقلاب اور تبدیلی کے وعدے بارہا کیے تھے۔ یہ وعدے پی۔ ٹی۔ آئی کے منشور کا حصہ تھے۔ 20 اگست 2018 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی وعدوں، دعووں اور انقلابی تبدیلیوں کے خوبصورت اعلانات کا سلسلہ جاری رہا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان وعدوں پر اعتماد کیا۔

ان کے خیال میں عمران خان ایک کرشماتی شخصیت کے حامل تھے اور ان کے لئے صورتحال کو سنبھال کر قوم کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانا کچھ مشکل کام نہ تھا۔ حکومت کی طرف سے، خود وزیر اعظم نے اپیل کی کہ ہمیں سو دن دے دو۔ اس کے بعد ہماری کارکردگی کو جانچو۔ یہ سو دن بھی گزر گئے اور حالات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ کسی نہ کسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک سے چھ ارب ڈالر کے قریب رقوم ملیں جن سے زر مبادلہ کے ذخائز کی شکل بہتر دکھائی دینے لگی۔ تب حکومت نے لوگوں سے کہا کہ ہمیں چھ ماہ دے دو۔ اس کے بعد بے شک ہماری کارکردگی کو جانچو۔ چھ ماہ بھی گزر گئے اور اب 20 اپریل کو نواں مہینہ شروع ہو جائے گا۔

ان آٹھ ماہ میں اقتصادی صورتحال مسلسل بگڑتی چلی گئی۔ حکومت نے دو بار منی بجٹ پیش کیے لیکن معیشت سنبھلنے نہ پائی۔ اکانومی کے تمام اشاریے صرف ایک ہی بات بتا رہے ہیں کہ پی۔ ٹی۔ آئی کی حکومت معیشت کے شعبے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ مبصرین بتا رہے ہیں کہ اس کی وجہ نا اہلی سے کہیں زیادہ کسی طرح کی تیاری یا ہوم ورک کا فقدان ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد، اسحاق ڈار نے 7 جون کو وزیر خزانہ کے طور پر حلف اٹھایا۔

وہ ایوان صدر سے سیدھے اپنی وزارت کے دفتر پہنچے۔ عملے کو بلایا۔ بریفنگ لی۔ وہ دو دن اور دو راتیں مسلسل اپنے دفتر میں رہے۔ 5 دن بعد، 12 جون کو انہوں نے وفاقی بجٹ پیش کیا۔ انہوں نے کسی ابہام کے بغیر فیصلہ کیا کہ آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا ہے۔ صرف 27 دن بعد، 4 جولائی کو آئی۔ ایم۔ ایف سے 6.4 بلین ڈالر کا پیکج طے پا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا واحد پیکج ہے جو کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔ یاد رہے کہ اس وقت اکانومی یا کسی بھی دوسرے کام کے لئے کوئی خصوصی ٹاسک فورس نہیں بنی تھی۔ سارا کام وزراء اور ان کی وزارتوں کے متعلقہ حکام ہی کر رہے تھے۔

آج جبکہ آٹھ ماہ مکمل ہو رہے ہیں، معاشی زوال ہر شعبے سے عیاں ہے۔ وزیر اعظم اور وزراء اٹھتے بیٹھتے ایک ہی دلیل دیتے ہیں کہ انہیں تباہ حال معیشت ورثے میں ملی ہے۔ اب جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ دراصل گزشتہ یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ یہ بات حکومتی اہلکاروں کی طرف سے ہر روز اتنی بار دہرائی جاتی ہے کہ بہت سے لوگوں کو سچ معلوم ہونے لگی ہے۔ یہ ابلاغیات عامہ کا جانا پہچانا اصول ہے کہ بار بار کی تکرار کے با وجود نہ تو زمینی حقائق تبدیل ہوتے ہیں نہ اعداد و شمار جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی ساکھ رکھنے والے مبصرین اور عالمی مانیٹرنگ ادارے کسی کی طرف داری کرتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ عام آدمی خود محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ وہ کل کس حال میں تھا اور آج کس حال میں ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر یہ ساری خرابیاں جانے والی حکومت کے دور میں بھی تھیں تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کیوں مستحکم تھی؟ جی۔ ڈی۔ پی یعنی معیشت کی شرح نمو 6 فی صد تک کیسے پہنچ گئی تھی؟ اسٹاک ایکس چینج اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح کو کیوں چھو رہا تھا؟ ہماری معیشت کو ”ایمرجنگ اکانومی“ یعنی ابھرتی ہوئی معیشت کا درجہ کیوں مل گیا تھا؟

مہنگائی کی شرح تین چار فیصد تک کیوں رکی رہی؟ زر مباد لہ کے ذخائر کیسے 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے؟ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے کیسے مکمل ہوئے؟ 11 ہزار میگا واٹ بجلی کیسے پیدا کر لی گئی؟ سی۔ پیک کی شکل میں 54 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیسے آ گئی؟ ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں کیوں ڈال دیا؟ موٹر ویز اور شاہراوں کا جال کیسے بچھا؟ موڈیز اور دیگر معتبر ایجنسیوں نے ہماری ریٹنگ کیوں بہتر کی؟

ایسے ہی سوالات ان لوگوں کے ذہنوں میں بھی ابھر رہے ہیں جو معاشیات کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے لیکن ذاتی تجربے کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں آج زندگی کتنی مشکل ہو چکی ہے۔ انہیں شاید اس بات سے غرض نہ ہو کہ جو اسٹاک ایکسچینج 2017 میں 53 ہزار پوائنٹس سے بھی کہیں اوپر چلی گئی تھی آج 36 ہزار پوائنٹس تک کیوں گر گئی ہے، لیکن انہیں یہ ضرور معلوم ہے کہ بجلی کے بلوں میں کتنا اضافہ ہو گیا ہے اور گیس کے بل چار گنا بڑھ گئے ہیں۔

لوگوں کو شاید ان اعداد و شمار سے آگاہی نہ ہو کہ افراط زر کی جو شرح مسلم لیگ (ن) کے دور میں تین فیصد کے لگ بھگ تھی آج وہ دس فیصد تک پہنچ چکی ہے لیکن آٹھ ماہ میں شدید مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایک عام پاکستانی کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ جی۔ ڈی۔ پی کی شرح 6 فیصد سے گر کر 3 فیصد تک آگئی ہے لیکن بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اندازہ ہر گھرانے کو ہو رہا ہے۔ ہر شہری شاید نہ جانتا ہو کہ سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، تاجروں اور کاروباری لوگوں کا اعتماد کس بری طرح مجروح ہو چکا ہے لیکن وہ اپنے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ ترقیاتی کام رکے پڑے ہیں۔

نہ سڑکیں، نہ موٹر ویز، نہ انفراسٹرکچر۔ ترقیاتی فنڈز کم کر کے صرف 40 فیصد رہ گئے ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ پچھلی حکومت نے قرضوں کا انبار لگا دیا۔ شاید ایسا ہی ہو لیکن چند روز حکومت کے معاشی ترجمان رہنے والے ڈاکٹر فرخ سلیم بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ہکومت نے اپنے دور میں ( 2008 سے 2013 تک) روزانہ 5 ارب روپے کے حساب سے قرضے لئے۔ مسلم لیگ (ن) نے ( 2013 سے 2018 تک) روزانہ ساڑھے سات ارب روپے کے حساب سے قرضہ لیا۔ جبکہ پی۔ ٹی۔ آئی کی موجودہ حکومت روزانہ 15 ارب روپے کے حساب سے قرضے چڑھا رہی ہے۔ جو ڈالر مسلم لیگ (ن) کے دور میں 105 روپے کا تھا، وہ نگران حکومت کے دور میں 125 روپے اور آج 145 روپے کا ہو چکا ہے۔

تجارت اور ٹیکسٹائل کے مشیر عبد الرزاق داود نے د و دن پہلے اعتراف کیا کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی بتایا کہ روپے کی قدر میں 30 فیصد سے زائد کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ادھر آئی۔ ایم۔ ایف اور ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف کی تلواریں سر پر لٹک رہی ہیں۔ بے یقینی کی فضا نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ”نیب“ دندنا رہا ہے اور خوف کے اس ماحول میں روشنی کی ایک بھی ایسی کرن دکھائی نہیں دے رہی جو پاکستانیوں کو تسلی دے کہ اچھے دن جلد آنے والے ہیں۔ تاہم اس کے با وجود وفاقی وزیر فیصل ووڈا قوم کو بتا رہے ہیں کہ دو ہفتوں میں لاکھوں کروڑوں نوکریاں آنے کو ہیں۔ یہ ہیں زمینی حقائق اور یہ ہیں دعوے۔ خدا خیر کرئے!

۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).