کوئٹہ آسٹریلیا سے زیادہ دور ہے؟


\"husnainبہت افسوس ہوا، یہ تو بہت بڑا ظلم ہے، ملک کے سیکیورٹی ادارے کہاں ہیں، حکومت کیا کر رہی ہے، اس دھماکے میں غیر ملکی سازش ہے، دھماکوں کے پیچھے را کا ہاتھ ہے، اقتصادی راہداری کی وجہ سے بڑی طاقتیں بدامنی پھیلانا چاہتی ہیں، بلوچ قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کی سازش ہے، انتہائی تکلیف دہ سانحہ تھا، کوئٹہ میں خوش حالی بھارت سے ہضم نہیں ہو رہی (کون سی خوش حالی؟)، ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی، ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کر لی، ذمہ داری داعش نے قبول کر لی، اتنا ظلم، الفاظ نہیں ہیں میرے پاس کچھ کہنے کے لیے!

یہ تمام لائینیں صبح سے گردش کر رہی ہیں۔ کھا گئے سر اپنا سب کے سب! آپ کے پاس الفاظ نہیں ہیں، ٹھیک ہے، جن کے پاس الفاظ ہیں، ان کی بات سنیے۔ بھائی عثمان قاضی کہتے ہیں؛

\”ایک لمحے میں بیس سے زیادہ عزیزوں، دوستوں، شاگردوں سے محروم ہو گیا ہوں.

ایک دوست کے بیٹے سے بات ہوئی جو اسپتال سے خون عطیہ کر کے آ رہا تھا. بولا، کاکا، دعا کرو کہ جو زخمی ہیں وہ بھی جلد مر جائیں کہ شدید معذوری کی زندگی موت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہو گی. تازہ ترین خبر کے مطابق اس کی دعا آہستہ آہستہ قبول ہو رہی ہے. تعداد سو سے بڑھ گئی ہے.\” کیسی تکلیف اس جملے میں چھپی ہے، کوئی صاحب دل ہو تو محسوس کرے۔

کوئٹہ شاید ہمارے لیے آسٹریلیا سے بھی زیادہ دور ہے کہ وہاں سے آتی خبریں ہم تک پہنچتی پہنچتی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں یا پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ کبھی کوئی ماما قدیر آتا ہے تو صحافیوں کے کان کھڑے ہوتے ہیں یا پھر لوگوں کو ہلانے کے لیے سالانہ دھماکے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تین برس پہلے 2013 میں بھی عین اسی تاریخ یعنی آٹھ اگست کو ایک دھماکہ ہوا تھا، ایک دھماکہ آج پھر ہو گیا، گویا بلوچستان میں تاریخ تو اپنے بال کھولے روتی اور خود کو دہراتی جا ہی رہی ہے، اب دھماکے بھی خود کو دھرائیں گے؟

گھروں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ والے بھی کراچی کے باسیوں کی طرح ٹینکر خریدتے رہے، ہم تک خبر کبھی نہ پہنچی۔ تنگ سڑکوں کی وجہ سے ٹریفک گھنٹوں جام رہنے لگی، ہم تک کبھی آواز نہیں آئی۔ عبدالمالک بلوچ وزیر اعلی ہو کر اعتراف کرتے رہے کہ کوئٹہ کا کوئی مسئلہ وہ حل نہ کر سکے، ہمارے کانوں تک بات نہ پہنچی، کراچی کی طرح کوئٹہ میں بھی کچرے کے ڈھیر جا بجا نظر آنا شروع ہو گئے، ہمارے اخباروں یا سوشل میڈیا پر کچھ نظر نہ آیا، اور اب ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارہ کوئٹہ کے وکلا اور ججوں پر حملوں کی ٹائم لائن دے رہا ہے، دل تھام کر اسے دیکھا اور بس ایک ہی خیال دوڑے چلا جا رہا ہے کہ ان خبروں پر ہم نے کتنا رد عمل دیا، کتنے ٹاک شوز ہوئے اور کتنے فیس بک سٹیٹس بدلے گئے؟

فروری 2007 میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کورٹ پر خودکش حملہ کیا گیا، 11 افراد ہلاک ہوئے، سات جولائی 2008 کوئٹہ میں جان محمد روڑ پر حملہ آوروں نے وکیل غلام مصطفیٰ قریشی کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا، چھ ستمبر 2010 کو کوئٹہ کے وکیل زمان مری کی گولیوں سے چھلنی لاش مستونگ سے ملتی ہے، انھیں کوئٹہ سے اغوا کیا گیا تھا، کوئٹہ ہی سے لاپتہ وکیل علی شیر کرد کی تشدد شدہ لاش 24 ستمبر 2010 کو خضدار سے ملتی ہے، 30 اگست 2012 کو سیشن جج ذوالفقار نقوی ان کے گارڈ اور ڈرائیور کو نامعلوم حملہ آور گولی مار کر ہلاک کرتے ہیں، 20 جون 2014 کے روز جناح ٹاؤن میں فائرنگ سے ماحولیات کے ٹربیونل جج سخی سلطان ہلاک ہوتے ہیں، 11 نومبر 2014 انسداد دہشت گردی کی عدالت پر بم حملے میں ایک شخص ہلاک اور 20 افراد رخمی ہوئے، آٹھ جون 2016 کو بلوچستان لا کالج کے پرنسپل بیریسٹر امان اللہ اچکزئی حملہ آوروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے، تین اگست 2016 کو ایڈووکیٹ جہانزیب علوی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور پھر آج 08 اگست، ہماری تاریخ کے سیاہ تر دن، بلال انور کاسی حسب معمول نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوتے ہیں، جن کی لاش سول ہپستال پہنچائی جاتی ہی تو خودکش حملہ ہو جاتا ہے اور سو سے زائد افراد اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

آج اس خبر سے پورا ملک لرز جاتا ہے، اور اس سے پہلے جتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں اس پر کوئی رد عمل نہیں آتا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے وارننگ لیٹر جاری کرتی رہتی ہیں، وہ تک ہماری آنکھوں کے سامنے سے نہیں گزرتے، ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمیں وقتی طور پر جاگنے کے لیے سو افراد کی قربانی درکار ہے؟

بستر پر لیٹ کر یہ تحریر لکھتا ہوا ایک منہ بولا کالم نگار اس دکھ اور کرب کو کبھی لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا جو ان سو سے زیادہ بدنصیب افراد کے خاندانوں کو ہے، جو ظفر اللہ خان کو ہے، جس درد کا شکار عثمان قاضی ہیں، سو بار نوحہ خوانی کر چکا، سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے، وجاہت بھائی راشد الخیری کا خطاب دے چکے، وسی بابا کہتا ہو گا وقار کی طرح یہ بھی رونا شروع ہو جاتا ہے، جب روز ایسی بہت سی خبریں اپنے منحوس منہ اٹھائے دیکھنے والوں کی منتظر ہوں تو کوئی کب تک پھولوں اور دنیا کی لطیف چیزوں کی فکر میں رہے یارو؟

بھائی ظفر کا آج والا کالم ان الفاظ میں ختم ہوا تھا، اسی پر یہ تحریر بھی ختم ہو گی!

ضبط کا بندھن مگر ٹوٹ ٹوٹ سا جاتا ہے۔ کسی پر کوئی الزام نہیں۔ میں لفافہ صحافی ہوں۔ ایمان فروش ہوں۔ میرا ضمیر گروی ہے۔ میں غدار وطن ہوں۔ میں شودر ہوں ۔ وہ شودر جسے بس جینے کی آس درکار ہے۔ شودر کو سپھل ہونے کی راہ تو کوئی پجاری بھی نہیں بتاتا۔ شودر کل کس کس سے تعزیت کرے گا؟ کس کس کے آنسو پونچھے گا؟ کس کس کو تسلی دے گا؟ کس کس کو امید دلائے گا؟ مگر یار ! درد میں شودر کی آنکھ سے آنسو بہہ کر جب منہ میں گرتا ہے تو اس کا ذائقہ بھی نمکین ہوتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments