سکیورٹی اور معاشی بندوبست


وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کی بہت سی توجیحات ہو سکتی ہیں مگر حکومت کی اس پریشانی کی بظاہر بنیادی وجہ معاشی چیلنجز ہی بنے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں تبدیلی وزیر اعظم عمران خان کے ایران اور چین کے اہم ترین دوروں سے محض چند روز پہلے عمل میں لائی گئی ہے۔

بظاہر ایران اور چین سے مذاکرات میں سکیورٹی اور معیشت ہی بنیادی نقاط ہوں گے ۔پاکستان چین سے معاشی ریلیف خاص طور پر سی پیک اور اکنامک زون کی بروقت اور جلد تکمیل کا متمنی ہے۔ چین کو پاکستان کے معاشی معاملات کے حوالے سے تشویش ہے حالانکہ چین کے سرمایہ دار منصوبوں کے ٹھیکوں کی آسان شرائط پر فراہمی اور اس عمل میں مزید آسانیاں چاہتے ہیں انہیں یہ احساس بھی ہے کہ وہ ایک خطرناک صورتحال والے ملک میں سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔

چین کو بھی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کے گٹھ جوڑ کے باعث بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے شدید تشویش ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کا اتحاد گوادر بندرگاہ اور کوسٹل ہائی وے جو سی پیک منصوبوں کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے کے لئے خطرے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔

دہشت گردوں کی کوسٹل ہائی وے جو بلوچستان کی محفوظ ترین شاہراہ تصور کی جاتی ہے پر بہیمانہ کارروائی نے چین کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ بلوچ شدت پسندوں نے گزشتہ چند روز میں خودکش حملوں سمیت بڑی کارروائیاں کر کے بلوچستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ کے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا ہے ۔

کوسٹل ہائی وے پر تین علیحدگی پسند تنظیموں نے مل کر کارروائی کا دعویٰ کیا ہے۔ ان حملوں کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے یقینا وزیر اعظم عمران خاں کو چین اور ایران کی قیادت کو بلوچستان میں حالات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے قائل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

وزیر اعظم سے ایران کے سفیر نے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ ایران پر بارڈر سکیورٹی مذاکرات کا کلیدی نقطہ ہو گی۔ چین کو بھی پاکستان اور ایران کی سرحد پر بگڑتی سکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے یہ علاقہ علیحدگی پسندوں مذہبی شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے گڑھ میں تبدیل ہو چکا ہے جس سے نہ صرف سٹریٹجک مشکلات پیدا ہو رہی ہیں بلکہ یہ سی پیک کی رفتارکو سست کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔

ایران کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ سعودی عرب جیش العدل کو ایران کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں مدد فراہم کر رہا ہے اس گروپ نے امسال 23فروری کو کارروائی کر کے ایران کے پاسداران انقلاب کے 27اہلکاروں کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں تنائو میں اضافہ ہوا تھا یہاں تک کہ ایران کے انٹیلی جنس کے وزیر محمد علوی نے پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی تھی .

جس کے بعد پاکستان نے ایران کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے ایران کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ایران سے اس حوالے سے مکمل تعاون بھی کیا جائے گا۔ پاکستان نے ایران کو افغانستان کی طرح سرحد پر باڑ لگانے کی تجویز بھی دی تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ ایران کی سرحد پر خار دار تار لگانا افغانستان سے کہیں زیادہ مشکل ہے اس طرح پاکستان کو ایرانی سیکورٹی فورسزکی کارروائیوں کے حوالے سے بھی تشویش ہے2018ء میں ایران کی سکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقوں چاغی گوادر اور پنجگور کے اضلاع کی سرحد پر 6بار گولہ باری کی تھی جبکہ 2017ء میں ایسے واقعات کی تعداد 12تھی ایران کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے گولہ باری سے سرحدی علاقوں نے مکینوں کے جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور معمولات زندگی معطل ہو جاتے ہیں۔

مقامی لوگوں کو تو یہاں تک شبہ ہے کہ ایران بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں خاص طور پر بی ایل اے اور بی ایل ایف بارے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ ان تنظیموں کے حملہ آور کارروائیوں کے بعد ایران فرار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایران کی قیادت کی کو گلہ ہے کہ بی ایل اے ایران کے سیکولر علیحدگی پسندوں سے مراسم ہیں .

دسمبر 2018ء میں بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گردوں نے ایران سے ملحقہ کچھ سرحد پرپاکستان کے چھ سکیورٹی اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب پاکستان اور ایران نے دہشت گردی‘ منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے انسداد کے لئے مل کر کام کرنے کی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔

پیچیدہ سرحدی سکیورٹی صورتحال کے باوجود دونوں ممالک سرحد کے آر پار علیحدگی پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کی کارروائیوں کے انسداد کے لئے مل کر میکنزم بنا سکتے ہیں پاکستان اور ایران کی سرحد پر متحرک گروہوں کے ایجنڈے سے دونوں ممالک بخوبی واقف ہیں اور دونوں ملک مل کر ہی اس ایجنڈے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

ایران اور پاکستان ماضی میں ایسا کر بھی چکے ہیں ماضی میں 70ء کی دہائی کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو اور ایران کے رضا شاہ پہلوی نے سرحدی علاقوں پر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیا تھا البتہ اس حوالے سے سعودی فیکٹر کو کسی کے لئے بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

پاکستان کو معاشی بحران میں سعودی عرب کی مالی مدد کی اشد ضرورت ہے مگر پاکستان اپنے بنیادی سکیورٹی اور اقتصادی اہداف جو دہشت گردی کے خاتمے اور سی پیک کی فعالیت سے وابسطہ ہیں سے آنکھیں بھی بند نہیں کر سکتا خاص طور پر بلوچستان کی صورتحال پاکستان کے بقا کا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان چین کے دورے سے پہلے ایران سے سرحدی سکیورٹی کے حوالے سے یقین دہانیاں حاصل کر سکتے ہیں جہاں اس قسم کا مثبت ردعمل دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید گہرا کرنے میں معاون ہو گا۔

عمران خان نے اپنے وزیر خزانہ اسد عمر کو عہدے سے ہٹا کر بھی چین کو ایک مثبت اشارہ دیا ہے جو نہ صرف ملکی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہے بلکہ سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کا باعث بھی بن رہے تھے۔ پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ سیک پیک ہماری معیشت کو سہارا دے مگر موجودہ حکومت کی بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی پاکستان کے سی پیک کے ساتھ دیگر ذرائع کی طرف دیکھنے کی بھی وجہ بن رہی تھی۔

جبکہ اندیشہ یہ ہے کہ مغرب نا صرف سی پیک کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی لے ڈوب سکتا ہے۔ ملکی معیشت کے حوالے سے مبالغہ آرائی اس امر کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا معاشی فوکس سی پیک پر ہی مرکوز رہے۔ البتہ یہ بات نئے آنے والے وزیر خزانہ اور اس کی ٹیم پر منحصر ہو گی کہ وہ کس طرح ملکی معیشت کی روڈ میپنگ کرتے ہیں؟

چین ون بیلٹ ون روڈ انشیٹیو کو ایک کامیاب منصوبہ دیکھنا چاہتا ہے اور سی پیک اس کا جزولازم ہے۔ چین کو یہ احساس بھی ہے کہ پاکستان سی پیک پر مزید سبک رفتاری سے کام کر سکتا ہے جس سے بی آر آئی میں شراکت دار ممالک کی حوصلہ افرائی ہو گی اور ان ممالک کو بھی اس منصوبہ کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے جو تاحال اس میں شمولیت سے ہچکچا رہے ہیں۔

تاہم سکیورٹی صورتحال بہرحال سی پیک کے ثمرات کے حصول میں بنیادی کردار ادا کرے گی پاکستان اور چین کے درمیان مزید تعاون کا انحصار بھی امن و امان کی صورت پر ہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).