سری لنکا میں دہشت گردی: تشویش کے چند پہلو


سری لنکا میں متعدد گرجا گھروں اور ہوٹلوں کو بم دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک 207 افراد ہلاک اور سینکروں زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مقامات دارالحکومت کولمبو کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی واقع تھے۔ یہ حملے ایسٹر کے موقع پر کئے گئے ہیں۔
ہوٹلوں میں غیر ملکی سیاح مقیم تھے اور گرجا گھروں میں عیسائی اقلیت کے لوگ ایسٹرکے حوالے سے عبادات میں حصہ لے رہے تھے۔ ابھی تک کسی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی خاص معلومات سامنے لائی گئی ہیں۔ لیکن حملوں کی شدت اور انہیں منظم کرنے کے طریقہ سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ان حملوں میں کوئی ایسا گروہ ملوث ہے جسے اس قسم کے حملے کرنے کا تجربہ بھی ہے اور وہ سری لنکا جیسے چھوٹے ملک میں اپنا وسیع نیٹ ورک بنانے میں بھی کامیاب ہؤا ہے۔
سری لنکا 1983 سے تامل ٹائیگرز کی علیحدگی کی جد و جہد کی وجہ سے ربع صدی تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ اس جنگ کے دوران 70 سے 80 ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم 2009 میں سری لنکا نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے کر اس خانہ جنگی کا خاتمہ کیا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ دس برس کے دوران ملک میں امن و امان بحال رہا ہے۔ گوکہ تشدد کے اکا دکا واقعات کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں ۔ ملک کے بدھوں کی طرف سے جو آبادی کا تین چوتھائی حصہ ہیں ، اقلیتی مذاہب کے خلاف شدت پسندی کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ان دس برسوں کے دوران سری لنکا میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہؤا ۔ کولمبو کی حکومت کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ کہ اس پرامن اور سیاحوں کی جنت کہلانے والے اس ملک میں ایسی ہلاکت خیزی دیکھنے میں آئے گی۔
فطری خوبصورتی، گرم موسم اور ساحلی سہولتوں کی وجہ سے خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد سے سری لنکا کو سیاحت کے لئے مقبول مقام کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ سیاحوں کے لئے دنیا کے مختلف مقامات کی درجہ بندی کرنے والے ایک ادارے نے سری لنکا کو 2019 میں بہترین ملک کا درجہ بھی دیا تھا۔ تاہم آج کے ہلاکت خیز حملوں کے بعد ملک کی سیاحت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ برس 22 لاکھ کے لگ بھگ سیاح سری لنکا آئے تھے اور ملکی معیشت کو اس سے سوا چار ارب ڈالر کا فائدہ ہؤا تھا۔ یہ ملک کی کل قومی پیداوار کا پانچ فیصد ہے اور حکومت اس میں اضافہ کے لئے کوششیں کررہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے نے ان حملوں کو ملک کی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ ان حملوں میں عبادت گاہوں اور ہوٹلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن حکومت امن و امان بحال کرنے اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کرے گی‘۔
اگرچہ ابھی تک کسی گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن سری لنکا کثیر المذہبی معاشرہ ہے۔ ملک کی کل آبادی سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں اکثریت بدھ مت کو ماننے والوں کی ہے جو ملک کی آبادی کا ستر فیصد ہیں۔ ان کے علاوہ بارہ فیصد ہندو ، دس فیصد مسلمان اور ساڑھے سات فیصد عیسائی بھی سری لنکا میں رہتے ہیں۔ ملک کے عیسائیوں کی بہت بڑی اکثریت کیتھولک عقیدے کو مانتی ہے۔ آج کے حملوں میں غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ ملک کی سب سے چھوٹی مذہبی اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح ملک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں بے چینی اور سراسیمگی پیدا کی گئی ہے۔ سری لنکا کی حکومت کے لئے اہم ہو گا کہ وہ ان حملوں میں ملوث عناصر کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ معاشرہ میں مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر تصادم کا نیا سلسلہ نہ شروع ہوسکے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ انہیں ان حملوں سے ہفتہ عشرہ قبل عالمی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ممکنہ حملوں کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر محکمہ جاتی وارننگ جاری کی گئی تھی۔ ان معلومات کے مطابق نیشنل توحید جماعت نامی ایک گروہ ملک کے گرجا گھروں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ بدقسمتی سے یہ اطلاعات درست ثابت ہوئیں ۔ ان کامیاب دہشت گرد حملوں میں دو سو سے زائد بے گناہوں کی ہلاکت کے بعد یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سری لنکن پولیس اور متعلقہ ادارے اس وارننگ کا سنجیدہ نوٹس لینے اور حملہ آوروں کو دھماکوں اور جانی نقصان سے پہلے روکنے اور گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اب حکام کا دعویٰ ہے کہ مجرموں کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور ان کے بارے میں معلومات جمع کرلی گئی ہیں۔ کچھ گرفتاریوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ اگرچہ حکام کی یہ پھرتیاں دیر سے سامنے آرہی ہیں لیکن یہ سمجھنا بھی دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ادارہ یا حکومت سری لنکا جیسے چھوٹے اور غیر متعلق ملک میں اس قدر سنگین ، ہلاکت خیز اور منظم حملوں کا تصور نہیں کرسکتی تھی۔
ان حملوں میں عیسائی عبادت گزاروں کے علاوہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حملہ آور عیسائیوں اور سیاحوں کو نشانہ بنا کر صرف سری لنکا کی حکومت کو ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کو بھی کو پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔ کیوں کہ ان ممالک میں ہی زیادہ عیسائی آباد ہیں اور زیادہ تر سیاح بھی انہی ملکوں سے سری لنکا کا رخ کرتے ہیں۔ گو کہ گزشتہ چند برسوں میں چینی سیاحوں نے بھی سری لنکا آنا شروع کیا تھا۔ گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آنے والے کل سیاحوں کا دس فیصد کے لگ بھگ چینی سیاح تھے۔
سری لنکا میں ہونے والے حملوں سے یہ واضح پیغام بھی سامنے آیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی کر نے والے گروہوں کے نہ حوصلے پست کئے جاسکے ہیں اور نہ ہی انہیں کمزور کیا جاسکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے شام میں داعش کے آخری ٹھکانے کو ختم کرنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ اسلامی خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس وقت بھی ماہرین نے اس اعلان کو قبل از وقت قرار دیا تھا اور آج کے حملوں نے اس گمان کو غلط ثابت کیا ہے کہ دہشت گرد ایک علاقہ سے ختم کئے جانے کے بعد حملے اور تباہ کاری کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس یہ اندازے زیادہ درست اور مبنی بر حقیقت ہیں کہ دہشت گرد ایک جگہ سے پسپائی کے بعد مختلف مقامات کی طرف پھیل سکتے ہیں اور ان کے حملے کرنے کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ یہ گروہ جگہ اور وقت کے ساتھ مختلف ناموں سے سامنے آتے ہیں لیکن ان کا بنیادی مقصد بے چینی اور عدم تحفظ عام کرنے کے علاوہ مذہب کی بنیاد پر نفرت کو فروغ دینا ہے۔
داعش نے گزشتہ ہفتہ کے دوران کوئٹہ میں ہزارہ منگی کے مقام پر دہشت گرد حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں بیس افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ چند روز پہلے وسطی شام میں سرکاری افواج پر حملوں میں داعش نے تین درجن سے زیادہ فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی اب کوئی راز کی بات نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ سری لنکا کے حملوں میں داعش سے ہمدردی رکھنے والے عناصر ملوث ہیں لیکن حملوں کی شدت کی وجہ سے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں کسی بڑے اور منظم دہشت گرد گروہ کا ہاتھ ہے۔ ان حملوں سے یہ حقیقت ایک بار پھر سامنے آئی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورک دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں اور وہ ایسے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جن کا تصور بھی محال ہو۔
یہ دہشت گردی ایک ملک یا ایک عقیدہ کے خلاف نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں کو یہ سمجھ کر دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ عناصر کسی بھی روپ میں کہیں بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ مذہب، عقیدہ اور جغرافیائی تقسیم سے بالا ہو کر لڑنے اور جیتنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے لیڈروں نے سری لنکا میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے اور متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے ۔ اب انہیں باہمی اشتراک سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ انسانیت کو لاحق اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے بھی متحد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali