خاموشی اور شور کی ثقافت


خاموشی کی ثقافت Culture of silence کے بارے میں آپ نے یقیناً سنا ہوگا۔ گھریلو، سیاسی، اور جنسی تشدد کے شکار افراد کی اختیار کردہ خاموشی کے بارے میں بہت سے ماہرین نے گراں قدر کام کیا ہے۔ خاموشی کی ثقافت کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ گو کچھ کہا نہیں جاتا مگر خاموشی اپنی زبان سے بولتی ہے۔ خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے جو بسا اوقات لفظوں سے زیادہ بلند اور موثر ثابت ہوتی ہے۔ زباں پر مہر لگ جائے تو ہر ایک حلقہ زنجیر زبان بن کر بولتا ہے۔ جن اصحاب کے حافظوں میں ستر کے عشرے میں لگنے والا مارشل لاء اور اس کی کچھ نشانیاں تاحال موجود ہیں انہیں اخبارات کے سفید صفحات یقینا یاد ہوں گے۔ یہ صفحات کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہتے تھے۔ اسی لیے یہ با معنی خاموشی آج تک نہ صرف حافظوں میں محفوظ ہے بلکہ بطور حوالہ کام آتی ہے۔ غالبا جبر کی میکانیت Mechanisms of suppression اس وقت تک قدرے ناتراشیدہ تھے اس لیے اس خاموشی سے جاری ہونے والے پیغام کو ڈی کوڈ نہ کر سکی۔

اخبارات کے سفید اور خاموش صفحات نے مزاحمت کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ کوڑے کھانے والے سیاسی کارکنان سے لے کر مصور، شاعر اور افسانہ نگار سبھی نے اپنی اپنی زبان اور اپنے اختیار کردہ پیرایوں میں کچھ نہ کچھ کہا۔ اس مزاحمت نے پسے ہوئے طبقات کو کچھ سکھایا یا نہیں یہ الگ گفتگو ہے تاہم اس مزاحمت نے جبر کی طاقتوں کو بہت کچھ سکھایا۔ ان اہم اسباق میں سے غالبا سب سے اہم سبق جبر کی طاقتوں نے یہ سیکھا کہ خاموشی کی زبان بہت خطرناک ہوتی ہے۔ بسا اوقات یہ بولنے والوں سے زیادہ بولتی ہے۔ اس کی کاٹ زیادہ موثر اور نتائج دیرپا اور دور رس ہوتے ہیں۔ لہذا طاقتور طبقات نے خاموشی کی ثقافت کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ کیا کھل کر بات کرنے کی اجازت دے دی گئی؟ نہیں۔ یہ متبادل تو بہر طور ناقابل قبول تھا۔ خاموشی کی اس ثقافت کو جس شے سے تبدیل کیا گیا وہ شور کی ثقافت تھی۔ شور کی ثقافت کی تعریف اس طالب علم نے یوں کرنے کی کوشش کی ہے۔

”ایک ایسا ماحول جس میں ہر آدمی کے پاس ہر بات کہنے کا یارا ہو مگر اس سے قبل کہ بات سنی جائے اس کے اردگرد شکوک وشبہات کا ایک ایسا ہالہ پیدا کر دیا جائے کہ بات سماعتوں میں اترنے سے پہلے ہی مشکوک ہو جائے“۔

آئیے اس اجمال کی تفصیل دیکھتے ہیں۔

دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہر معاملہ، ہر موضوع اور ہر شخص متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ کون سوچ سکتا ہے کہ مولانا عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں کو ان کے گراں قدر کاموں کے علاوھ بھی کسی اور پیمانے پر پرکھا جائے گا۔ کون سوچ سکتا ہے کہ پاکستانی فوج کے جاں بحق ہونے والے سپاہیوں کے درجہء شہادت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ ہر الیکشن مشکوک اور ہر عدالتی فیصلہ متنازعہ ٹھہرے گا۔ قصور میں زینب قتل ہوجائے یا ملالہ زخمی۔ ہر واقعہ اختلافات کی نذر ہو جاتا ہے۔ اختلاف جمہوریت اور علمی دنیا کی زندگی کا ثبوت ہوتے ہیں۔ تاہم چند امور اختلافات سے ماورا سمجھے جاتے ہیں۔ عموماً انسانی جان کا ضیاع جنگ کی انتہائی صورت حال کے علاوہ اختلافات کا موضوع نہیں بنتا۔ متحارب گروہ انسان کے قتل کے کسی جواز کو لائق سماعت اور قابل توجہ نہیں سمجھتے۔

مجھے معلوم ہے یہاں فلسطین، شام، لیبیا، عراق، اور یمن کی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن دنیا میں جاری جنگوں کی پیدا کردہ صورتحال کو ذرا گفتگو سے باہر رکھیے۔ نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمان قتل ہوئے۔ گو قاتل نے مسلمانوں کے جرائم جواز کے طور پر گنوائے مگر جرائم کی اس فہرست کو نظر انداز کر کے قاتل کے قبیح کام پر تنقید کی گئی۔ مقتولین کا سوگ منایا گیا اور ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا۔ اب کوئٹہ کے واقعات حکومتی اور عمومی رویوں کا جائزہ لیجیے۔ نیوزی لینڈ اور کوئٹہ کے واقعات پر عمومی رویوں میں فرق کو دیکھیے جو یگانگت غیر مسلموں نے مسلمانوں کے قتل پر دکھائی وہ مسلمان مسلمانوں کے قتل پر نہ دکھا سکے اس کے بعد وہ گرد اڑی کہ اصل واقعہ ہی نظر سے اوجھل ہو گیا۔

کسی بھی واقعہ یا موضوع پر اس طرح کا اختلاف صرف پاکستان میں نہیں ہوتا۔ صرف شدت کا فرق ہے وگرنہ اختلافات اور کشاکش کا یہ پرشور ماحول ایک عالمی حقیقت ہے۔ عراق پر ناجائز حملے اور قبضہ کے جواز جس طرح مغربی میڈیا نے فراہم کیے وہ آپ کے حافظوں میں موجود ہوں گے۔ فلسطینیوں کی جائز جدوجہد کو جس طرح غیر مؤثر، غیر اخلاقی اور غیرانسانی ثابت کیا گیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

yuval noah harari

یووال ہراری Yuval Harari ایک بہت مقبول اسرائیلی مورخ ہیں۔ ان کی کئی کتابیں حال ہی میں بہت مقبول ہوئیں اور اشتیاق سے پڑھی گئیں۔ ان کتابوں میں سے ایک کتاب اکیسویں صدی کے اکیس موضوعات سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان Disillusionment ہے۔ ہراری نے اس باب میں انسانی نفسیات کے بارے میں ایک ایسی حقیقت سے گفتگو کا آغاز کیا ہے جس کو ہم مذہبی ذہن رکھنے والے لوگ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہراری کا اصرار ہے کہ انسان کہانیوں میں سوچتا ہے۔ کہانی جتنی سادہ ہوگی اتنی زیادہ سمجھ میں آئے گی اور اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ( پاکستان میں کرپشن کی کہانی، ٹرمپ کی امیگرنٹس کی کہانی اور بریگزٹ کو یاد کیجئے ) ہراری کے مطابق بیسویں صدی نے انسان کا تعارف تین کہانیوں (نظریات) سے کرایا تھا۔ پہلی کہانی فاشزم کی تھی جو جنگ عظیم دوم کے ساتھ ختم ہو گئی۔ انیس سو چالیس سے لے کر انیس سو اسی کے درمیان کا زمانہ دو کہانیوں کے مابین آویزش کا زمانہ تھا۔ اور یہ دو کہانیاں تھیں کمیونزم اور لبرل ازم کی کہانیاں۔ انیس سو اسی سے 2016 تک کا عرصہ لبرل ازم کی بلا شرکت غیرے حکومت کا عرصہ ہے۔ 2016 کے بعد انگلستان کے بریگزٹ اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے ساتھ 2018 میں لبرل ازم کی یہ کہانی بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہانی (نظریہ) ایک دن میں ختم نہیں ہوتی کہانی کا اختتام کہانی کی بنیادی بنت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہراری کے مطابق اس وقت انسانیت کسی کہانی کے بغیر زندہ ہے ظاہر ہے یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔ ہراری کی اس بات کو ذہن میں رکھیے اور واپس چلیے شور کی ثقافت کی جانب۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2