پی ٹی آئی کا نیا بلدیاتی نظام


یہ تحریر میں اس وقت لکھ رہا ہوں جب پچھلے نو ماہ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور کو سڑکوں کے پیچ ورک اور گلیوں میں لگی بتیوں سمیت کسی بھی ترقیاتی کام کے لئے پنجاب حکومت سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ مجھے لاہور کے لارڈ مئیر کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید نے بتایا کہ حقیقی جمہوریت کا رولا ڈالنے والی پی ٹی آئی نے بلدیہ لاہور کے تمام ترقیاتی فنڈز ہی نہیں روکے بلکہ غیر ترقیاتی فنڈز بھی آدھے کر دئیے ہیں جس کے بعد وہ ان سینکڑوں ملازمین کے گھروں کا چولہا بجھ گیا ہے جو ڈیلی ویجز سے کنفرم ہوئے تھے۔ میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اس اجلاس میں موجود تھا جس میں پی ٹی آئی کے نئے بلدیاتی نظام کو خود پی ٹی آئی کے ارکان مسترد کر رہے تھے، نواز لیگ کے ڈپٹی مئیر اور چئیرمین جیل بھرو تحریک کا اعلان کر رہے تھے۔ لاہور سے پی ٹی آئی کی نفرت ناقابل فہم ہے جہاں سے اس نے لاکھوں ووٹ لئے، جس شہر سے خود اس کے چئیرمین نے کرکٹ اور سیاست کا آغاز کیا۔

لارڈ مئیر نے کہا، پی ٹی آئی نئے بلدیاتی نظام کو اس طرح چھپا رہی ہے جس طرح ماں اپنے نومولود کو چھپاتی ہے مگر پھر اس کی تفصیلات سامنے آگئیں۔ صدیوں سے پنجاب میں ضلع ایک انتظامی یونٹ ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے ترجمان کے ٹوئیٹر پر اعلان کے مطابق پنجاب کا نیا بلدیاتی نظام ضلعے کی سطح پر موجود ہی نہیں ہو گا اور یوں یہ خبر درست ثابت ہوئی کہ پی ٹی آئی اضلاع کو منتخب نمائندوں کی بجائے بیوروکریسی کے ذریعے چلائے گی۔ جی ہاں، ان بڑے بڑے افسروں کے ذریعے جن کے دفاتر میں پیش ہونا بھی عام آدمی کے لئے قریب قریب ناممکن ہے۔

پنجاب میں اس وقت 35 ضلع کونسلیں اور ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن (لاہور) ہے مگر اب مجوزہ نظام میں صرف 138 تحصیل کونسلیں ہوں گی۔ صوبے بھر میں اس وقت 3281یونین کونسلیں ہیں مگر اب یہ دیہات میں پنچائیتیں (ویلج) اور شہروں میں محلہ (نیبر ہُڈ) کونسلیں ہوں گی اور ان کی تعداد ریونیو کے موضعوں کے برابر یعنی بائیس ہزار ہوگی۔ پنجاب میں اس وقت سوا تین ہزار یونین کونسلوں کو انتظامی طورپر نہیں سنبھالا جا رہا اور جب یہ بائیس ہزار ہوں گی تو ان کے انتظامات کیسے ہوں گے، ان کے لئے عملہ اور وسائل کہاں سے آئیں گے ،اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

گاوں اور محلے کی سطح پر قائم بائیس ہزار کونسلوں کے الیکشن غیر جماعتی یعنی غیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ’فری لسٹ‘ ہوں گے یعنی ہر بندہ الیکشن میں کسی عہدے کا انتخاب کئے بغیر حصہ لے گا اور جو سب سے زیادہ ووٹ لے گا وہ چئیرمین بن جائے گا ، دوسرے نمبر والا وائس چئیرمین اور علی ہذاالقیاس۔ تعریف اس انتخاب کی یہ ہے کہ منتخب لوگ سیاسی دھڑے بندی سے بالاتر ہو کے عوام کی خدمت کر سکیں گے اور سوال یہ ہے کہ اگر غیر سیاسی ہونا اتنا ہی اچھا ہے تو پھر تحصیل کونسلوں کے الیکشن کیوں اس حد تک سیاسی بنیادوں پر کروائے جائیں گے کہ وہاں کوئی فرد اپنے طور پرامیدوار نہیں ہوگا بلکہ ہر سیاسی جماعت مثال کے طور پر پی ٹی آئی، نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا الگ الگ پینل ہو گا اور ووٹ بھی پورے پینل کو ہی ڈالا جائے گا ۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ ا س سے سیاست اور جمہوریت مضبوط ہو گی، دھڑے بندی اور تعصبات کا خاتمہ ہو گا۔ یہ پنجاب حکومت کے ترجمان کی ہی خاصیت ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں غیر سیاسی اور سیاسی انتخابات کی تعریفیں کریں، یہ اس نظام کا ’’کھلا تضاد‘‘ ہے۔

حکومت کہتی ہے کہ وہ تینتیس فیصد ترقیاتی بجٹ براہ راست بائیس ہزار ویلج اور محلہ کونسلوں کو دے گی کہ خیبرپختونخوا میں اس کا تجربہ کیا جا چکا اور یہ نظام خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک سے بھی اخذ کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ترجمان نے خیبرپختونخوا میں دعووں اوراعلانات کے برعکس ترقیاتی فنڈز کے اجرا اور استعمال کی ا ہلیت کا مطالعہ کیا۔ وہاں تین برسوں میں بانوے ارب کی بجائے پچپن ارب ہی جاری کئے جا سکے، سینتیس ارب کی کٹوتی یہاں ہو گئی اور اس کے بعد جاری کئے گئے فنڈز کا استعمال بھی شرمناک حد تک کم رہا۔ لاہور میں بھی جہاں بلدیہ کے تمام ٹینڈرز روکے گئے ہیں وہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اپنے ہی چئیرمین کی تقریروں کے برعکس ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز جاری کر دئیے ہیں جو ان کی نظر میں صرف اور صرف کرپشن کے لئے ہوتے تھے۔

ترقیاتی فنڈز کو محلہ اور ویلج کونسلوں کو جاری کرنے کی تعریف کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سے دور دراز کے علاقوں میں ترقی ہوگی اور سارے وسائل لاہور پر خرچ نہیں ہوں گے مگر وہ یہ بات کرتے ہوئے ضلعوں میں وسائل کی تقسیم کے نظام کو بھول جاتے ہیں اور وہ یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کی اپنی ضرویات اور تقاضے ہوتے ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں زیادہ آبادی والے شہروں میں میٹرو ٹرینوں اور بسوں کے نظام لائے جاتے ہیں، رنگ روڈز جیسے میگا پراجیکٹس بنتے ہیں جو یقینی طور پر چھوٹے شہروں اورقصبوں کی ضرورت نہیں ہوتے۔

انجیئرنگ یونیورسٹیوں میں میٹروپولیٹن شہروں کی سائنس ایک الگ سپیشلائزڈ سبجیکٹ بن چکی ہے مگر نامعلوم مقاصد کے تحت موجودہ حکمران ملک کے تمام بڑے شہروں کو کچرا کنڈیوں میں بدلنا چاہتے ہیں اورلاہور کا ہی کیوں شکوہ کیا جائے کہ یہی سلوک انہوں نے پشاور کے ساتھ کیا ہے۔ معروف اینکر حامد میر نے ایک تقریب میں کہہ دیا کہ انہوں نے پشاور کا حال تورا بورا سے برا دیکھا، مجھے یہ کہنا ہے کہ لاہور بھی اسی طرف گامزن ہے۔

پی ٹی آئی کا اصل مقصد موجودہ بلدیاتی اداروں سے جان چھڑوانا ہے جہاں مسلم لیگ نون کی اکثریت ہے او ر جب یہ مسودہ قانون کابینہ میں پیش ہو رہا تھا تو چودھریوں کے شہر گجرات میں نواز لیگ کا مئیر منتخب ہو رہا تھا۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ وہ ایک برس کے اندر الیکشن کروائیں گے اور یہی نیا نظام اصل تبدیلی ہو گا، ا س سے پہلے پی ٹی آئی بلدیاتی اداروں کی جگہ اپنے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے گی۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی کی یہی اصل مراد و منشا ہے کہ وہ موجودہ اداروں کو ختم کر کے اپنی کٹھ پتلیاں بٹھا دے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے تمام بلدیاتی اداروں ( بشمول پی ٹی آئی) کے سربراہوں کا اتحاد ہو چکا، لاہور کے مئیر حکومتی ارادوں کے خلاف سپریم کورٹ جا چکے۔ اس وقت اگر نیا قانون آ بھی جائے تو وہ عدالت میں چیلنج ہوگا اور یوں معاملہ پہلے اس طرح لٹکے گا اور اس کے بعد اگر پی ٹی آئی عدالتی جنگ جیت بھی گئی تو حلقہ بندیاں شروع ہوں گی، یہ حلقہ بندیاں پہلے ٹریبونلز اور پھر اپیلٹ کورٹس میں چیلنج ہوں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ان کاموں میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔

پروپیگنڈہ یہ ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام میں کمپنیاں بنا کے اسے معذور کر دیا گیا جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو بلدیاتی اداروں کے تابع ہی رکھا گیا، یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے نوے کی دہائی میں بننے والے بلدیاتی نظام کی جگہ اپنی ضلعی حکومتیں دیں اور شہباز شریف نے انہیں بے دست و با کرتے ہوئے سات برس کے بعد اپنا نظام دیا اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بلدیاتی ادارے لائے مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہر حکومت اپنے ہی قانون اور ادارے لانے پر لگی رہی تو بلدیات کا یہ نظام نہ کبھی بن پائے گا اور نہ کبھی چل پائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ نظام ہی کی خامیاں دور کرتے ہوے اس میں اصلاحات کر لی جائیں مگر شائد اس سے حکمرانوں کے گروہی سیاسی مقاصد پورے نہ ہو سکیں۔ لاہور کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ارکان کہتے ہیں کہ حکومتی اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جیلیں بھریں گے تو خیال ہے کہ اس سے بھی اچھا تماشا لگ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).