یہ کرکٹ ہے یا کچھ اور!


جب سے عمران خان کا سیاست میں عروج شروع ہوا ہے پوری قوم کی طرح میں بھی ان کے سحر میں مبتلا ہوں۔

وہ زندگی اور سیاست کے مشکل سے مشکل ترین مسئلے کی جس طرح کرکٹ کی اصطلاحوں میں تشریح کرتے ہیں کوئی شاعر ہی کر سکتا ہے۔ کہیں امپائر کی انگلی اٹھواتے تھے تو کبھی ایک بال سے دو وکٹیں لینے کے دعوے۔ یہ سب باتیں دیوانے کی بڑ لگتی تھیں لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا انھوں نے ایک بال سے دو وکٹیں گرائیں کہ نہیں اور امپائر کی انگلی تو ایسی اٹھی ہے کہ نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

مجھے وہ ہونہار ٹی وی اینکر بھی بہت پسند ہیں جو چمکتی ہوئی آنکھوں اور منہ سے بہتی رال کو روکتے ہوئے پوچھتے تھے، خان صاحب آپ اگلا باؤنسر کب پھینکیں گے۔

حالانکہ کرکٹ کے بارے میں مجھے چوکے، چھکے اور آؤٹ سے زیادہ نہیں کچھ پتا لیکن میں نے بھی اپنے سامعین کو پاکستانی سیاست کے داؤ پیچ سمجھانے کے لیے کرکٹ کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔

پچھلے چند مہینوں میں دنیا کے کئی بڑے اور چھوٹے ادبی میلوں میں جانا ہوا۔ مقصد اپنی نئی کتاب کی تشہیر ہوتا ہے لیکن میزبان اور سامعین کتاب کے بارے میں روایتی سوال پوچھنے کی بات کے بجائے دل کی بات زبان پر لے آتے ہیں اور وہ ہوتی ہے عمران خان اور ان کی سیاست۔ عمران خان کیسے وزیراعظم ہیں، کیا عمران خان واقعی پاکستان کو بدل سکتے ہیں؟

دو ماہ پہلے آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تھا اور ایک بھرے مجمعے کے سامنے اپنی کتاب کا منجن بیچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ سامعین میں سے سوال آیا وہ تو ٹھیک ہے لیکن عمران خان کیسا وزیر اعظم ہے؟

آسٹریلین بھی ہماری طرح کرکٹ کے دیوانے ہیں سو میں نے کہا آپ لوگوں نے ٹیسٹ میچ تو دیکھے ہوں گے تو یوں سمجھیے ابھی ٹیسٹ میچ کا پہلا دن ہے اور کھانے کے وقفے سے پہلے کا کھیل جاری ہے۔ میچ کے آغاز میں کبھی کبھی کوئی وائیڈ بال ہو جاتی ہے، کوئی لیگ بائی نکل جاتی ہے لیکن لمبا میچ ہے، ہمیں صبر سے دیکھنا چاہیے۔

آسٹریلویوں کو یقین ہو گیا کہ میں عمران خان کی قوم کا ایک دانا آدمی ہوں۔ بہت تالیاں بجیں، پتہ نہیں میرے لیے یا عمران خان کے لیے؟

پچھلے مہینے جرمنی کا ایک چھوٹا سا قصبہ، ادبی میلہ، میزبان اور ساتھ میں جرمن سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے ایک مترجم بھی۔

میں اپنے ناول کی شان میں قصیدہ پڑھ چکا تو میزبان نے وہی عمران خان والا سوال پوچھ لیا۔ میں نے بھی اپنا رٹا رٹایا جواب دے دیا کہ بھائی دیکھیے عمران خان نے اپنا کریئر ٹیسٹ کرکٹ سے شروع کیا اور آپ کو پتا ہے کہ ٹیسٹ میچ پانچ دن کا ہوتا ہے۔

ابھی میرا جملہ مکمل ہی نہیں ہوا تھا کہ مترجم نے روک دیا۔ اس نے کہا میرا خیال ہے سامعین کو آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ پہلے انھیں بتا دیں کہ ٹیسٹ کرکٹ ہوتی کیا ہے۔ میں نے باقی پورا سیشن ٹیسٹ کرکٹ کے مدوجزر سمجھانے میں گزار دیا۔

پتہ نہیں جرمنوں کو میری بات سمجھ آئی یا نہیں، تالی کسی نے نہیں بجائی اور جب میں نے آخر میں یہ کہا کہ بعض دفعہ پانچ دن کے میچ کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ کون ہارا، کون جیتا تو سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک آدھ نے جملہ بھی کسا جس کا ترجمہ مترجم نے کرنے سے انکار کر دیا لیکن مجھے لگا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ کس چریا قوم کا نمائندہ ہے اور کیا چریا کھیل ہے۔

دو دن قبل عمران خان صاحب جب بڑے خانوں والی پگڑی پہن کر قبائلی عوام سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے آغاز اپنی کتاب کے ذکر سے کیا تو اپنے اپنے سے لگے کہ مصنف وزیراعظم بن جائے تو بھی اپنی تخلیق کو نہیں بھولتا لیکن مجھے انتظار تھا کہ اپنی کابینہ میں رد وبدل (اتھل پتھل شاید مناسب لفظ ہے) کے لیے کرکٹ کی کون سی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے مایوس نہیں کیا۔ فرمایا کہ بیٹنگ آرڈر ہی تبدیل کیا ہے اور پھر کروں گا کیونکہ کپتان کا تو کام ہی یہی ہے۔

نئے کھلاڑیوں کے ناموں پر نظر پڑی تو سمجھ آگئی کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اصلی والی چھترول کے لیے لائے گئے ہیں اور فردوس عاشق اعوان زبانی چھترول کے لیے۔

وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے نام پر آ کر ٹھٹکا۔ یہ تو وہی صاحب ہیں جو زرداری کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اگر کسی کو شک تھا تو خان صاحب سب کو یقین دلا چکے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور ملک کا سب سے بڑا چور آصف زرداری۔

مجھے نہیں پتہ کہ کرپشن کیسے ہوتی ہے یا ملکی خزانہ کیسے لوٹا جاتا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حکمران خزانہ لوٹتا رہے اور خزانچی کو پتہ ہی نہیں چلے۔ میں نے دل کو تسلی دینے کے لیے سوچا کہ زرداری صاحب استاد آدمی ہیں ہو سکتا ہے حفیظ شیخ کے دفتر جاتے ہوں، انھیں کہتے ہوں کہ آپ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائیں اور آنکھیں بند کر لیں میں نے آپ کا خزانہ چیک کرنا ہے اور پھر اس میں سے کچھ لے اڑتے ہوں۔

یا ہو سکتا ہے کہ کچھ مخبر لگا رکھے ہوں کہ جب رات کو حفیظ شیخ سو جائے تو اس کے تکیے کے نیچے سے خزانے کی چابی لے آنا۔ ہم رات کو خزانہ لوٹ کر چابی تکیے کے نیچے رکھ دیں گے۔ شیخ صاحب شریف آدمی ہیں، ہم پر تو شک بھی نہیں کریں گے۔ یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا ورنہ خان صاحب ملک کے کرپٹ ترین حکمران کے خزانچی کو اپنے خزانے کی چابیاں کیوں مرحمت فرمائیں گے۔

عمران خان نے پوری قوم کو کرپشن کے نام پر اکٹھا کر دیا تھا۔ جنھیں بات سمجھ نہیں آتی تھیں انھیں کرکٹ کی جھلکیاں دکھا دکھا کر قائل کر لیا لیکن اب دل میں تھوڑا سا شک پیدا ہونے لگا ہے کہ خان صاحب نے گھروں سے ہمیں کرکٹ دیکھنے کے لیے بلایا تھا اور اب وہ جو خود کرکٹ سے آگے کی کوئی گیم کھیل رہے ہیں وہ ابھی ہماری سمجھ سے باہر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).