اسد عمر ناکام ہوئے یا سازش کا شکار؟


اسدعمر کے پاس دو ہی آپشن تھے یا تو وہ اسحق ڈار یا اس سے پہلے والے وزرائے خزانہ کی طرح سیدھا آئی ایم ایف کے پاس چلا جاتا اور وہاں سے قرضہ لے کر عوام کو سبسڈی دیتا اور اپنی بلے بلے کرواتا۔ پانچ سال اسی طرح ہندسوں کے ہیر پھیر سے عمران خان اور عوام کو خوش کرتا لیکن پانچ سال بعد ملکی معیشت کا وہی حال ہوتا جو اسحق ڈار صاحب کر کے گئے ہیں۔ 30 ہزار ارب روپے قرضہ وہ چھوڑ کر گئے تھے اسدعمر 45,50 ہزار ارب تک لے جاتا اور بعد میں عوام اس کی جان کو بھی ویسے ہی روتے جس طرح اسحق ڈار کو رو رہے ہیں۔

دوسرا آپشن یہ تھا کہ وہ معیشت جو اسٹریچر پر پڑی تھی اس کا آپریشن کرتا۔ اس آپریشن سے ظاہر ہے مریض کو تکلیف بھی ہونی تھی اور کمزوری بھی لیکن آخر کار مریض شفایاب ہو جاتا۔ اسدعمر نے حکومت میں آتے ہی عمران خان کو معیشت بارے حقائق بتائے۔ اسحق ڈار جو زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر بتاتے تھے حقیقت میں وہ 8 ارب ڈالر تھے۔ معاشی ترقی کی شرع بھی 5.7 نہیں بلکہ بہت کم تھی جسے لفظوں کے ہیر پھیر سے اتنا زیادہ بتایا گیا۔

پاکستان کی امپورٹ مسلسل بڑھ رہی تھیں جبکہ ایکسپورٹ کم سے کم ہوتی جا رہی تھیں۔ اسدعمر نے سیدھا آئی ایم ایف کے پاس جانے کے دوست ممالک سے قرضہ لینے کا پلان بنایا اور اس میں عمران خان کی شخصیت نے باآسانی اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ اسدعمر نے منی بجٹ پیش کر کے سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقہ کو ریلیف دیے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ کو 40 فیصد تک کم کر دیا۔ امورٹ میں کمی اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہوناشروع ہو گیا۔ صنعتوں کے لیے بجلی کے نرخ کم کرکے بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا شروع کیا جس سے فیصل آباد کی وہ انڈسٹری جو پچھلے کئی سالوں سے بند پڑی تھی اس کا پہیہ بھی چل پڑا تھا۔

اسد عمر نے اپنے کپتان کی ہی شخصیت کو استعمال کرتے ہوئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راضی کیا اور خاص طور پر آٹوموبائل کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر راضی کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آٹوموبائل کی امپورٹ میں بھی 40 فیصد تک کمی آگئی۔ نتیجہ آٹوموبائل کی مخالفت کی شکل میں ملا۔ اس کے علاوہ اسدعمر نے ٹیکس کے نظام میں بہتری کی طرف اقدام شروع کیے تو بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے جب دیکھا کہ یہ بندہ خریدا نہیں جا سکتا تو حربے کے طور پر سٹاک ایکسچینچ سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کردیا اور اوپر سے میڈیا کے ذریعے ایک منظم کیمپین شروع کروائی گئی کہ اسٹاک ایکسچینج 54 ہزار سے 36 ہزار پر آگئی ہے۔

حالانکہ جولائی 2018 میں بھی اسٹاک ایکسچینج 37 پر ہی تھی۔ اس بات کی تصدیق اسی روز ہو گئی تھی جس دن اسدعمر کا استعفی آیا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ جو منفی جارہی تھی اچانک مثبت ہو گئی اور اگلے ہی روز کئی سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا حالانکہ نئے مشیر خزانہ نے پالیسی بیان تک جاری نا کیا تھا کہ جس سے اسٹاک ایکسچینج کو کوئی مثبت تبدیلی کی امید پیدا ہوتی۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان کہ ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی اکانومی اسٹاک ایکسچینج سے زیادہ زراعت ودیگر شعبوں پر انحصار کرتی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو بھی اسدعمر کی ناکامی تصور کیا گیا حالانکہ ن لیگی سابق وزیرخزانہ نے آن ریکارڈ یہ بات کہی کہ ڈالر کی اصل قیمت یہی ہے جواب ہے ہم نے مصنوعی طریقے سے اسے روک رکھا تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق صرف ڈالر کو ایک قیمت پر روکے رکھنے کے لیے 7,8 ارب ڈالر مارکیٹ میں جھونک دیے گئے۔

اسدعمر کے استعفے کی بنیادی وجوہات میں تحریک انصاف کے اندرہی موجود ایک گروہ نے اہم کردار اداکیا جو نہیں چاہتا تھا کہ اسدعمر کامیاب ہو اور اس گروہ کو لیڈ کوئی اور نہیں جناب عزت مآب جہانگیر ترین صاحب کررہے تھے۔ اسدعمر سے ترین صاحب کی دشمنی کی بڑی وجہ قریشی گروپ کے ساتھ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھی کہ اس بار انہوں نے یہ کیا کہ حکومت جو شوگرملوں کو سبسڈی پہلے دیتی تھی، اس بار یہ کیا کہ ان کو آخر میں دینے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ شوگرمل مافیا حکومت سے سبسڈی لے کر کسانوں کو پھر بھی پوری قیمت نہیں دیتا تھا۔

جہانگیر ترین کے بارے میں بھی میڈیا اور عوام میں یہ تاثر نہایت جانفشانی کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ یہ تحریک انصاف کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے امیج بلڈنگ کی گئی جیسے جہانگیر ترین جوڑتوڑ کے بہت بڑے ماہر ہوں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ جو لوگ تحریک انصاف کے اندرونی معاملات سے واقف ہیں وہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ پچھلے 5 سال جب بھی کسی جگہ جلسہ ہوتا تو اس علاقے کے اسٹیک ہولڈرز یا ٹکٹ کے امیدواروں سے چندہ وصول کیا جاتا تھا۔

جلسہ اگر لاہور میں بھی ہے تو سینٹرل پنجاب کے تمام اضلاع کے لوگوں سے چندہ وصول کیا جاتا تھا اور امیدوار بیچارے اس امید پر زیادہ سے زیادہ چندہ دیتے تھے کہ شاید اسی بنا پر ٹکٹ مل جائے گا۔ اس ساری فنڈنگ کو جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے نام سے کیش کروایا جاتا تھا کہ جیسے یہ سارا پیسہ وہ لگا رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ پیسہ پارٹی کا ہوتا تھا۔ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ یا کچھ دوسرے لوٹوں کو (جو خود قبلہ بدلنا چاہتے تھے اور ہر پانچ سال بعد یہ کام کرتے ہیں ) کو تحریک انصاف میں شامل کروا کر یہ باور کروایا گیا کہ جہانگیر ترین جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔

لیکن ادھر بھی حقیقت اس کے برعکس تھی یہ وہ لوگ تھے جو مشرف کے ساتھ بھی تھے اور زرداری کے ساتھ بھی، 2013 میں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی لوگ کھڑے تھے اور اب ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنے اور مفادات کو سامنے رکھ کر نئی سواری پر سوارہونا چاہ رہے تھے۔ اس کا کریڈٹ بھی جہانگیر ترین نے سوشل میڈیا ٹیم اور میڈیا کے دوستوں کے ذریعے خوب لیا۔ حالانکہ 2013 سے 2018 کے درمیان کئی مقامات پر تحریک انصاف کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جن کی اس وقت شمولیت حالات کا رخ بدل سکتی تھی۔

خاص طور پر جب 2014 میں دھرنا دیا گیا تھا اس وقت ان میں سے اگر 5,7 لوگ بھی اس بنیاد پر تحریک انصاف میں شامل ہو جاتے کہ یہ حکومت دھاندلی کے ذریعے آئی ہے تو ہوا کا رخ بدل سکتا تھا لیکن اس وقت یہ لوگ اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے اور اب بھی وہ اقتدار کا مزہ لینے ہی آئے ہیں اس ترین صاحب کا کمال کچھ بھی نہیں۔ یہ کمال 2013 سے 2018 کے درمیان نظرآنا چاہیے تھا لیکن اس وقت کچھ نا ہوا۔ اسدعمر کے استعفی پر ترین صاحب کے سوشل میڈیا سیل جس کا ہیڈ فرحان ورک ہے، نے اسد عمر کے خلاف باقاعدہ کیمپئین شروع کی۔ تین دن ایسی گھٹیا کیمپئین کروانے کے بعد جہانگیر ترین نے آج ورکرز کو اپنے خلاف ہوتا دیکھ کر ایک ٹویٹ کی کہ فرحان ورک نے بہت غلط کیا حالانکہ سوشل میڈیا کا ہر ورکر جانتا ہے کہ فرحان ورک کے پیچھے کون ہے۔ خیر ترین صاحب پر پھر کسی دن بات کر لیں گے کیونکہ اس کے لیے ایک تحریر بہت کم پڑجائے گی۔

اسد عمر کی کامیابیوں کو میڈیا پر اجاگر کرنا وزارت اطلاعات کا کام تھا جس کے وزیر جناب فواد چوہدری صاحب چونکہ ترین گروہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے کبھی اس بارے توجہ ہی نا دی یا یوں کہہ لیں کہ اسدعمر کو ناکام دکھانے کے لیے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی گئی۔ رہی سہی کسر ترین گروپ کے ہی وزراء عامر کیانی اور سرور خان کی نا اہلی نے نکال دی۔ ادویات اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا جس کا ذمہ دار بھی اسدعمر کو ٹھہرایا گیا۔

ساتھ ہی کابینہ میں اسدعمر کے خلاف ترین گروپ نے سازشیں شروع کر دیں جس کا نتیجہ اسدعمر کے استعفی کی صورت میں ملا۔ ماہر معاشیات کی اکثریت آج بھی اسدعمر کی پالیسیوں کو حق بجانب سمجھتی ہے لیکن ترین گروپ نے صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے عمران خان سے ایک غلط فیصلہ کروا دیا۔ عمران خان کو اسدعمر پر مکمل اعتماد تھا لیکن ان کے کان بھرے جارہے تھے۔ اور عین اس وقت جب اسدعمر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے امریکہ گئے تھے ترین گروپ نے کمال مہارت سے کام کردکھایا۔

عمران خان بھی انسان ہے غلطیاں اس سے بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جواپنی غلطیوں سے سیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ عمران خان کو اس بات کا احساس پہلے دن ہی ہو چکا تھا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اب شیخ رشید کو اسدعمر کو منانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ کس قدر کامیاب ہوتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).