جاؤ جا کے کرکٹ کھیلو کرکٹ


یہ الفاظ ہیں میاں محمد نواز شریف کے جو عوام کے ووٹ لے کر وزیراعظم تو بن گئے تھے لیکن اقامہ کے چارج میں ایسے پھنسے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے نا اہل قرار پائے، ویسے تو نا اہل ثابت نہیں ہوئے تھے یعنی اپنی کابینہ کے توسط سے ملک کے تقریباًہر بزنس مین کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ چاہے دھرنے ہوں یا پھر کوئی اور سازش آپ نے گھبرانا نہیں ہے پاکستان میں بلا جھجک آپ اپنا پیسہ انویسٹ کر سکتے ہیں اور نواز شریف پر اعتبار کرتے ہوئے ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ مارکیٹ میں پھینکا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ملک میں خوشحالی آنے لگی، گر چہ تب پاکستانی عوام مہنگائی سے بہت تنگ بھی دکھائی دیتی تھی لیکن اس سے پہلے زرداری دور کو ذرا یاد کیا جائے تو عوام تب بھی مہنگائی سے مر رہے تھے اور لوگوں کو روزگار بھی دستیاب نہیں تھا۔

نواز شریف کادور آتے ہی معاشی پالیسیاں بدل گئیں، دھرنوں، توڑپھوڑ، ملک گیراحتجاج، ٹیکس اور بجلی گیس کے بلوں کے بائیکاٹ اور پارلیمنٹ پر حملوں کے باوجود نواز شریف کی معاشی پالیسی عوام کو رلیف دینے میں کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتی تھی لیکن خیر نواز شریف کا احتساب انہی کے دورِحکومت میں شروع ہوگیا بات بیرون ملک فلیٹ کیسے خریدے کی نکل پڑی جس پر نواز شریف پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے رہے بعد میں عدالتی پیشی کے دوران مکر گئے اس کے بعد سب جانتے ہیں ان کا اقامہ سامنے آیا جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کیا تھا لہذا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور نا اہل قرار پائے۔ اس کے بعد حکومت اہل شخص یعنی عمران خان کو الیکشن کے بعد سونپ دی گئی کیونکہ ان کا تجربہ کرکٹ میں بہت زیادہ تھا 1992 کا ورلڈ کپ بھی عمران خان نے پاکستان کو جیت کر دیا تھا دیکھنے میں بھی خان صاحب ایک اتھلیٹ انسان کے ساتھ ساتھ ہینڈسم بھی بہت زیادہ تھے اور ہیں بھی۔ !

خان صاحب کے بارے میں ایک بات خاصی عام ہے کہ خان صاحب ہار نہیں مانتے بظاہر ان کے فیصلے چاہے دیکھنے والوں کو برے لگتے ہوں مگر وہ جس بات پر ڈٹ جائیں کبھی اس سے نہیں پھرتے اور جو کرنے کی ٹھان لیں وہ کرکے دکھاتے ہیں، اسی کے ساتھ ایک اور بات ان کے کارناموں کی وجہ سے مشہور ہے کہ خان صاحب اپنی کہی ہوئی بات سے بہت جلد مکر جاتے ہیں اور یو ٹرن لے لیتے ہیں اب اصل بات کا اندازہ لگانا میرے لیے مشکل نہیں بلکہ میڈیا سے جڑے ہر انسان اور پاکستان میں رہنے والے ہر پاکستانی کے لیے انتہائی مشکل ہے۔

خان صاحب نے اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں جس میں اسد عمر بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ان کے بارے خان صاحب نے الیکشن کے قریب سپیشل ٹائم نکال کرایک ویڈیو ریکارڈ کروائی تھی جس کو بعد میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر وائرل کروایا ویڈیو میں خان صاحب فرما رہے تھے آپ نے اسد عمر کو ووٹ دینا ہے تاکہ وہ کامیاب ہو کر ہمارے وزیر خزانہ بن سکیں، اسد عمر وزیر خزانہ بن تو گئے لیکن تقریباًنو ماہ بعد معیشت کی ماں نے معیشت کو زندہ پیدا کرنے کی بجائے مردہ زمین پر پھٹک دیا جس کے باعث اس ماں کو طلاق یعنی وزارتِ خزانہ سے ہٹا دیا گیا، خان صاحب نے اورکزئی میں اپنے ایک جلسے کے دوران فرمایا کہ جو وزیر ملک کے لیے بہتر ہوگا وہی کام کرے گا باقی سب کو میں نکال باہر کروں گا، اسد عمر صاحب تو استعفیٰ کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ مجھے توانائی کی وزارت کی آفر کی گئی خان صاحب کی طرف سے لیکن میں نے قبول نہیں کی، اب پتا نہیں خان صاحب کا گیم پلان کیا ہے؟

ایک طرف کہتے ہیں یہ وزیر ملک کے لیے بہتر نہیں ہے اب اگر بہتر نہیں ہے تو توانائی کے لیے بہتر کیسے ہو سکتا ہے؟ خان صاحب کی اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ انہوں نے اپنے وزیر کیوں بدلے صرف سوال اتنا ہے کہ خان صاب آج اپنے وزیروں کے بارے یہ فرما رہے ہیں کہ جو ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا وہ نہیں رہے گا کیا خان صاحب قوم سے بھی معافی مانگیں گے؟ کیونکہ قوم سے تو یہ کہا گیا تھا اسد عمر کو ووٹ دو کیونکہ آج ایک وزیرخزانہ کی اشد ضرورت ہے اور اسد عمر اس وزارت کے لیے پرفیکٹ انسان ہیں۔

اورفرماتے ہیں کپتان کو ہی یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کے کھلاڑی کو کہاں کھلاتا ہے کسی کو بیٹنگ میں پہلے بھیجتا ہے تو کسی کو بعد میں۔ لیکن خان صاحب کو ایک بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ملک چلانا ایک میچ کھیلنے کے مترادف نہیں ہے میچ میں آپ اگر کپتان ہیں تو کپتان اپنا سارا فوکس اپنے کھلاڑیوں پر کرتا ہے ناکہ سٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھنے والے شائقین پر۔ لیکن سیاست میں پورا ملک اپنے سربراہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور سربراہ کی اچھی معاشی پالیسی اور خوشخبری کے انتظار میں لگا رہتا ہے۔

اب خان صاحب ملک کو کرکٹ ٹیم کے مائینڈ سیٹ سے چلا رہے رہے ہیں کرکٹ میں کوئی سپونسر ایک ٹیم خریدتا ہے اس کا کپتان سلیکٹ کرنے کے بعد اسے اس کی ٹیم سے متعارف کرواتا ہے اب یا تو خان صاحب بتا دیں انہیں کسی نے سپونسر کیا ہے؟ کسی نے ٹیم خرید کر دی ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں کیونکہ ووٹ عوام نے دیا ہے پھر یہ خان صاحب کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ آج کسی ٹیم کے کپتان نہیں ہیں بلکہ ایک ملک کے سربراہ ہیں لیکن ان کی عادتیں، باتیں، رویہ سب کا سب ایک کرکٹ ٹیم کے کپتان کی طرح ہے، اور اگر ایسا ہی رہا تو وہ دن دور نہیں کہ نواز شریف کے کہے ہوئے الفاظ ہر پاکستانی کی زبان پر آجائیں۔ ”جاؤجاکے کرکٹ کھیلو کرکٹ“ یہ بات کہ کر ایک طعنہ بھی دیا جائے گا ”کرکٹ بھی اب تم نہیں کھیل سکتے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).