دارالصحت نہیں دارالمفلوج


ملک عزیز میں مسیحاؤں اور نجی اسپتالوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے وہ وہ داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ جن کو اگر مہذب اقوام کے سامنے بیان کیا جائے تو وہ ان مسیحاؤں اور اسپتالوں کو چنگیز خان و ہلاکو خان سے بھی زیادہ سفّاک اور بے رحم قرار دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کریں گے۔ ان نامی گرامی نجی اسپتالوں اور نام نہاد مسیحاؤں کا مطمح نظر محض دولت کمانا اور تجوریاں بھرنا ہوتا ہے۔ مریضوں اور اُن کے اہل خانہ پر اپنی مرضی مسلط کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔

اُن کی معائنہ فیس ہی غریبوں کی روز کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور لیبارٹری ٹیسٹ اور دیگر سہولتوں کے نرخ تو اللہ اللہ۔ ایک دن میں ہی وہ اپنے اسپتال میں داخل مریضوں اور اُن کے اہل خانہ کا لمبے چوڑے بل بناکے بھرکس نکال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں تمام شعبوں میں اس وقت صورت حال بہتر نہیں، اُن کو مشکلات درپیش ہیں، نقصانات ہورہے ہیں لیکن شعبۂ صحت سے متعلق نجی اسپتال و کلینکس وغیرہ خوب پھل پھول رہے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی اسپتالوں میں عوام کو اُلٹی چُھری سے ذبح کرنے کی روش برسہا برس سے اختیار کی جارہی ہے۔ نارمل ڈیلیوری کو آپریشن (سی سیکشن) میں تبدیل کرنے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ اب تو نارمل پیدائش شاذ ونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے، کیونکہ نجی اسپتالوں نے سی سیکشن کو لازمی کرلیا ہے کہ اس کے بغیر وہاں نومولود جنم لے ہی نہیں سکتے۔

اگر بندہ نجی اسپتال میں غلطی سے داخل ہوجائے تو اُس کی جان اُس وقت تک نہیں چھوڑی جاتی جب تک وہ علاج کی خاطر قرض کے بار تلے بُری طرح دب نہیں جاتا۔ انتظامیہ و ڈاکٹروں کی جانب سے غیر ضروری ٹیسٹ، غیر ضروری طور پر آئی سی یو، سی سی یو میں منتقلی وغیرہ جیسے ہتھکنڈے اختیار کرنا معمول ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں کی ”داداگیری“ کے آگے مریض اور اُن کے اہل خانہ بے بس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک صورت حال اُس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب بھاری بھر کم اسپتال اخراجات برداشت کرنے والے مریضوں کو غلط علاج اور غفلت کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔

غلط انجکشن، ڈرپس، آپریشن میں کوتاہی وغیرہ معمول سا بن گیا ہے۔ اس باعث کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں برباد ہوچکی ہیں، مریض بہتری کے بجائے مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوچکے ہیں، اُن کی زیست اذیتوں سے عبارت ہیں، کتنے ہی لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں، لیکن حکومتیں (خواہ صوبائی ہوں یا وفاقی) اس حوالے سے بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی دِکھائی دیتی ہیں، کہ نجی اسپتالوں کے مالکان انتہائی ”با اثر“ جو ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے تازہ افسوس ناک واقعہ کراچی کے ایک نجی اسپتال دارالصحت میں پیش آیا جہاں ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث 9 ماہ کی معصوم بچی نشوہ مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اس لحاظ سے اسے ”دارالمفلوج“ گردانا جائے تو بہتر ہوگا۔ اُس کی یہ حالت ڈاکٹروں کی غیر ذمے داری کے باعث انجکشن کی زائد مقدار لگنے سے ہوئی ہے۔ اس معصوم کا علاج اب لیاقت نیشنل اسپتال میں جاری ہے۔ مذکورہ نجی اسپتال نے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور پشیماں ہونے کے بجائے ہٹ دھرمی اور سفّاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پولیس افسر کے ذریعے نشوہ کے والد کو دھمکیاں دیں، دباؤ ڈالا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہے۔

دردمند لوگوں کا غم و غصّے میں آنا لازمی تھا، جس کا بھرپور اظہار بھی کیا گیا، عوامی غیظ و غضب کے نتیجے میں دھمکی دینے والے پولیس افسر کو معطل کردیا گیا ہے۔ مظلوم نشوہ کو انصاف ملنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب کسی نجی اسپتال کو لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اس اسپتال کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ کسی اثررسوخ کو خاطر میں نہ لایا جائے اور کسی ظالم کو ہرگز بخشا نہ جائے، ظالموں کو ایک بار نشان عبرت بنادیا جائے تو کسی کو معصوموں پر ظلم کی جرأت نہ ہو۔ ایسے تمام غیر ذمے داریوں اور غفلت برتنے والے نجی اسپتالوں کا ناطقہ بند کردینا ازحد ضروری ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ اُس معصوم کو جلد صحت یاب کرے۔ (آمین)

دوسری طرف دیکھا جائے تو وطن عزیز میں صحت کی صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں، یہاں امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اسے ہمارے عوام کی بدنصیبی ہی قرار دیا جائے گا کہ یہاں حکمرانوں کی اوّلین ترجیح شعبۂ صحت کبھی نہیں رہا، اسی لیے سالانہ قومی اور صوبائی بجٹوں میں اس کا حصّہ انتہائی معمولی بلکہ نہ ہونے کے برابر رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ وہ بھی صحیح معنوں میں بروئے کار نہیں لایا جاتا۔

سرکاری اسپتال آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہیں، اُس پر طرّہ کہ اُن میں علاج معالجے کی وہ سہولتیں عموماً مفقود ہی ہوتی ہیں جن کی مریضوں کو ضرورت ہوتی ہے، یعنی مختلف امراض کی تشخیص اور اُن کی نوعیت کا پتا لگانے والی مشینیں اکثر خراب ہی رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ وہاں جانے کے بجائے نجی اسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں، جہاں اُن کی جیبوں پر نقب لگانے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے اختیار کرنا معمول ہے۔ ایسے میں مریض جائیں تو کہاں جائیں؟

کیوں اُن کے نصیب میں گھٹ گھٹ کے جینا اور مرنا لکھ دیا گیا ہے۔ آخر کب اُنہیں سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی مناسب اور معیاری سہولتیں دستیاب ہوں گی؟ کون عوام کی دادرسی کرے گا؟ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آنے والوں کو اس جانب بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ضروری ہے کہ بجٹ میں صحت کے لیے معقول حصّہ رکھا جائے۔ صحت کے صوبائی محکموں میں ہونے والی بدعنوانیوں پر قابو پایا جائے۔ سرکاری اسپتالوں کی ناصرف تعداد بڑھائی جائے بلکہ اُن میں علاج کی معیاری سہولتوں کو بھی یقینی بنایا جائے۔ نجی اسپتالوں کی من مانیاں ختم کی جائیں۔ ان اقدامات کے ذریعے صحت کی صورت حال کو کافی حد تک بہتر کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).