نا اہلوں کا ٹولہ اور اسد عمر


”اسد عمر پاکستان کو تمہاری ضرورت ہے“، یہ الفاظ جناب وزیراعظم عمران خان کے تھے، جب وہ کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرتے تھے، تب اسد عمر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، پاکستان تحریک انصاف میں جو دو چار اچھے اور نیک نیت لوگ ہیں، ان میں اسد عمر بھی شامل ہیں، عمران خان نے ایک جلسے میں کہا تھا، کہ اسد عمر ہمارا وزیر خزانہ ہو گا، اس ملک کی معیشت اسد عمر ہی ٹھیک کرے گا، عمران خان نے حکومت بنائی، اسد عمر پاکستان کی تاریخ کا پہلا عوامی منتخب نمائندہ جو وزیر خزانہ بنا، اس سے پہلے ٹیکنوکریٹس، اور سینیٹرز سے خزانے کی وزارت چلائی جاتی تھی۔

اسد عمر کا صاف ماضی اور نیک نیتی نے عوام کا اعتماد اسد عمر پر اور بڑھا دیا، وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اوپنر مانے جاتے تھے، اور انہیں ڈپٹی وزیراعظم بھی کہا جاتا تھا، ای سی سی کا اجلاس چیئر کرتے تھے، خزانہ جیسی اہم وزارت ان کے پاس تھی، اچانک جمعرات والے دن انہیں اپنے عہدے سے فارغ کر دیا گیا، اسد عمر کو پیٹرولیم کی وزارت کی پیشکش کی، پر انہوں نے کہا کہ مجھے اجازت دیں، میں کابینہ سے ہی چھٹی چاہتا ہوں، کیوں ایک سب سے قریبی اور اہم وزیر کو اس طرح گھر بھیجا گیا؟ ، کس سے مشورہ کیا گیا؟ ، کیا صرف معاشی بحران کا ذمہ دار اسد عمر ہی تھا؟

سوال بہت اٹھ رہے ہیں، یہ جمہوری نظام ہے، کیسے ایک شخص کو جو بدھ رات گیارہ بجے تک وزیر تھا، کامران خان سے ایک گھنٹے کا تفصیلی انٹرویو کیا، میں خود سن رہا تھا، اسد عمر اپنے اگلے دن کی مصروفیات بتا رہے تھے، بجٹ، آئی ایم ایف کے بارے میں بتا رہے تھے، انہیں اچانک اگلے دن کہا جاتا ہے، کہ اپ چلے جائیں، عجیب سول آمرانہ اقدام کیے جا رہے ہیں، پوری کابینہ اس فیصلے سے لا علم، وزیراعظم چند لوگوں سے مشورہ کر کے اپنے ہی اوپنر کو آوٹ کر وا دیتے ہیں۔

یہ فیصلے کس بنیاد پر کیے جا رہے ہیں، اگر کارکردگی کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، تو کیا پوری کابینہ کو فارغ نہیں کرنا چاہیے تھا؟ ، یہاں شاید صرف اپ بچ جائیں، باقی سارے تو ہاکی سے کرکٹ کھیلنے والے اور بقول ارشاد بھٹی جون جولائی میں سوئٹزر اور جرسیاں بیچنے والے اکٹھے کیے ہوئے ہیں، کس کی پرفارمنس اچھی ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں ہے، جن کو چپڑاسی نہیں رکھنا تھا، وہ وزیر، جو صوبہ محاذ کے نام پر آئے، وہ وزیر، کوئی کسی کا جاننے والا تو وہ وزیر، ہر پارٹی کے لوٹے اپ کے وزیر ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے جو چند لوگ وزیر ہیں، وہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے گروپوں میں تقسیم ہیں، زبیدہ جلال، فہمیدہ مرزا، خالد مقبول، علی زہدی، سرور خاں، فواد احمد چودھری، رزاق داؤد، شہزاد اکبر، فیصل واوڈا، شفقت محمود، ان کی کارکردگی نظر کیوں نہیں آتی؟ ، پنجاب کے وزیر اعلی ان سب سے زیادہ نا اہل ہیں، کیا ان کی باری بھی آئے گی، یا وہ اپ کی نظر کرم کی وجہ سے بچ جائیں گے، اگر معاشی کارکردگی اچھی نہیں، تو ای سی سی کے پچس اراکین کو بھی فارغ کرو،

خزانے کی ساری ٹاسک فورسز بھی فارغ کریں، اور لگے ہاتھوں اپ خود بھی آکر اپنی ناکامی پر قوم سے معافی مانگ لیں، کیوں کہ کپتان ذمہ داری لیتا ہے، صرف پلیئر ذمہ دار نہیں ہوتا، کپتان بھی نا کامی میں برابر کا حصہ دار ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں، کہ مشورہ کس سے کیا گیا، کابینہ تو لا علم تھی۔ کابینہ کے علاوہ بھی ایک اور خاص کابینہ ہے، وزیراعظم عمران خان کی جس میں کچھ کاروباری دوست اور کچھ پارٹی کے لوگ، جو گرمی اور سردی دونوں میں عمران خان کے ساتھ ہوتے ہیں، اور جناب عدالت سے نا اہل قرار دے گئے، جہانگیر ترین وہ بھی ان فیصلوں میں شامل ہوتے ہیں، ان کا دباؤ تھا، کہ اپ اسے فارغ کر دیں، اس سے پہلے بھی اسد عمر کی پالیسیوں پر جہانگیر ترین کھل کر ان کی مخالفت کر چکے ہیں، یہ فیصلے غیر منتخب لوگ اور نا اہل لوگ خان صاحب سے کر وا رہے ہیں، اس کی ایک اور وجہ بھی ہے، کہ اسد عمر کی پالیسی بڑے بزنس مین کے لیے اچھی نہیں تھی، اس لیے اس جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے عمران خان سے یہ فیصلہ کر وا لیا، دوسرا پریشر ان پر شاہ محمود قریشی گروپ کے ہونے کا بھی تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے، کہ یہ فیصلہ کہیں اور سے کیا گیا ہو۔

اب سوال بنتا ہے، کہ ان کی جگہ کون اے گا، تو مشیر خزانہ لگا دیا گیا ہے، حیثیت وفاقی وزیر کی ہو گی، مشیر خزانہ جناب حفیظ شیخ صاحب جو اس سے پہلی تقریباً ہر حکومت میں کسی کسی عہدے پر رہے ہیں، اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں تو وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں، عمران خان ہمیشہ کہتے رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک تباہ کر دیا، کیا اب یہ اپنا ہی تھوک چاٹنے کے برابر نہیں ہے، کہ انہیں کے دور کے وزیر خزانہ کو مشیر خزانہ لگا دیا، لیکن ان کے نزدیک اب یہ بے غیرت بن چکے ہیں، یو ٹرن لے لے کر اب ان کے نزدیک ایک اور لینے میں کوئی برائی نہیں ہے، بہتر کی تلاش میں یہ شمشاد اختر، حفیظ پاشا، عشرت حسین تک جا سکتے ہیں، کیونکہ ان کو کسی نہ کسی طرح مشرف اور زرداری کی کابینہ مکمل کرنی ہے۔

اسد عمر کی حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ، ان کی پالیسیوں سے میں اتفاق کر رہا ہوں، ان سے لاکھ اختلافات پر معاشی ٹیم کو کم از کم دو سال کا وقت دیں، قوم کے ساتھ مذاق نا کریں، اٹھ ماہ میں اس معیشت کو کوئی بھی ٹھیک نہیں کر سکتا، اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا، ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، وہ مشکل فیصلے آئی ایم ایف اور ایمنسٹی اسکیم تھا، حکومت نے دیر کی کیوں کہ یہ الیکشن سے پہلے ان کی مخالف کرتے رہے ہیں، اس کے علاوہ اسد عمر نے کہا نئے وزیر خزانہ کو تھوڑا وقت بھی دیں، انہوں نے ایک اور بات کی طرف اشارہ کیا کہ، میں اپنا کام کرنے آیا تھا، کسی سازش کا حصہ بننا نہیں، اس کا مطلب ہے، کہ سازش تھی، جس کی وجہ سے انہیں ہٹایا گیا ہے، معیشت کوئی برائیلر چوزہ نہیں ہے جو چالیس دن میں مرغی بن جائے، اس میں مشکل اور لونگ ٹرم فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اگر اسی طرح چلتا رہا، تو پھر ہر وزیر کو اٹھ ماہ بعد ہٹاتے رہو گے، کیوں کہ اٹھ ماہ میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا، معیشت کسی کی ضد اور انا پر نہیں چلتی، کہ اب یہ وزیر اس کو پسند نہیں ہے، یا کسی اور کو پسند نہیں ہے، تو ہٹا دو، اس سے پہلے بھی عاطف میاں پر ایک انتہا پسند طبقے کے پریشر میں آکر ملک کا نقصان کر چکے ہیں، کب بلیک میل ہونا چھوڑیں گے؟ ، ہر جگہ ایک مخصوص طبقہ بیٹھا ہوا ہے، کوئی دوست ہے، تو کوئی بیوروکریٹک، کوئی مذہب کو استعمال کر رہا ہے، یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے، کہ تبدیلی آئے، آپ کو اپنا خواب حاصل کرنا ہے، تو ان لوگوں کو ہٹاو، جو راہ میں رکاوٹ ہیں، ان لوگوں سے معاملات خراب نہ کروں، جن کے ساتھ مل کر یہ خواب پورا ہو گا۔

ہم عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں، کہ کب عثمان بزدار، محمود خان، اور پنجاب، خیبر پختونخواہ کی کابینہ میں بڑے بڑے فیصلے کریں، اور جہانگیر ترین کابینہ میں بیٹھ سکتے ہیں، اسلام آباد سے پنجاب حکومت چلا سکتے ہیں، زرعی پالیسی منظور کر سکتے ہیں، ہر چیز پر سبسڈی ختم لیکن شوگر ملز کو سبسڈی دی جا سکتی ہے، پر اسد عمر ان کو چبھ رہا تھا، کمزور اور شریف آدمی اس نے کہا مجھے پیٹرولیم نہیں چاہیے، میں کابینہ سے ہی چھٹی چاہتا ہوں، اس نے اپنا کام ایماندار سے کیا، طاقت ور طبقہ جیت گیا اور شریف آدمی چھوڑ کر چلا گیا۔

نئی کابینہ میں بھی پٹھیچر اور ریلوکٹے شامل کیے گئے ہیں، کوئی ایسا نہیں ہے، جو اٹھ ماہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے، اس لیے زیادہ کی امید نا رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).