مسجدِ قرطبہ کا سفر: غالب سے اقبال تک


آج صبح ہم مسجدِ قرطبہ تک پہنچنے کے لیے جیسس کے عزاداروں کے ہمراہی بن گئے۔ قرطبہ میں عیسائیوں نے ایسٹر کا جلوس نکالا ہوا تھا۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ہر سال تقریباٙٙ 30 ہزار لوگ ایسٹر کے موقعہ پر مسجدِ قرطبہ کے ارد گرد جیسس کی یاد میں جمع ہوتے ہیں۔ جلوس کیا تھا ایک فوجِ ظفر موج تھی۔ لیکن اِس سیلِ رواں میں میرے عزیز سید ظفر علی سہروردی اپنے بٹوے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھرپور تلاش کے باوجود نہ پاکٹ مار ملِا نہ قرطبہ کا قاضی۔

ظفر بھائی اِس سوچ میں گُم تھے کہ آخر کسی کا ہاتھ اُن کی جیب تک پہنچا کیسے۔ میں نے جائے وقوعہ کی نسبت و مناسبت سے انہیں علامہ اقبال کی نظم ”مسجدِ قرطبہ“ کا یہ مصرعہ سنایا:

عشق خود اِک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

جلوس میں جیسس کی شبیہ اور تابوت دیکھ کر محرم کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہاں، سبیل میں پانی کی جگہ وہ مشروب تھا جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ جلوس کے اختتام پر مسجدِ قرطبہ کی آس پاس والی گلیوں میں کہیں ”صہبائے خام“ نظر آئی اور کہیں ”کاسُ الکرام“۔ شاید یہ منظر دیکھ کر علامہ کی نظم میں ”لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ جانے والے آفتاب“ کو تپ چڑھ گئی۔ سورج نے آگ برسانا شروع کی تو حالات پہ قابو پانے کے لیے ”وادیِ کہسار میں غرق سحاب“ میدان میں آئے اور ایسا برسے کہ یورپی دہقانوں کے پسر و دختر کسی gender discrimination کے بغیر گیت گاتے نظر آئے۔ اقبال نے ہی کہا تھا:

کشتئی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب۔

بہر حال، ہم ایسے ”ساقیِ اربابِ ذوق“ اِس ”میدانِ شوق“ سے دامن بچا کر مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو وہاں کلیسا کی عمارت میں مسجد کے آثار مسلمانوں عظمتِ رفتہ کی مانند کھوئے کھوئے نظر آئے۔ مسجد کی زیارت کے بعد ہم اُس ”آبِ روانِ کبیر“ کے دیدار کو پہنچے جہاں علامہ نے ”کسی اور زمانے“ کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن دریا کا پانی مسلمانوں کے عہدِ حاضر کی طرح گدلا نظر آیا۔ دریا میں نہ ماضی کی چمک تھی نہ مستقبل کی دمک۔ ہاں، اس پانی میں ہمیں اپنی کم علمی اور اخلاقی پستی کی جھلک ضرور آئی۔

ہم نے من کی دنیا میں جھانکا تو ایک چھوٹے دماغ والا ضدی اور ہٹ دھرم انسان نظر آیا جو دین دھرم کے نام پر اپنے ملک میں ایسے خون بہانے کو تیار ہے جیسے مسجدِ قرطبہ کے آس پاس شربتِ ممنوعہ بہہ رہا ہے۔ ہمیں اُس انسان کا بھی سامنا ہُوا جو پیرس میں جلنے والے نوٹرے ڈیم چرچ کی مرمت کے لیے لاکھوں ڈالرز دینے کو تیار ہے لیکن اُسے دھوپ میں جھلستے ہوئے بے گھر افراد کی فریاد نہیں سنائی دیتی۔

میں 12 سال سے نظم ”مسجدِ قرطبہ“ کے عشق میں مبتلا ہوں۔ میں نے سن 2007 میں یہ نظم پڑھتے ہی دعا کی تھی کہ مجھے اس حرم کی زیارت نصیب ہو جس کا وجود علامہ کی نگاہ میں ہست و بود سے آزاد ہے۔ اردو شاعری میں اس نظم کا کرافٹ آٹھویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی مسجدِ قرطبہ کے آرکیٹیکچر جیسا انوکھا اور طرح دار ہے۔ یہ نظم پڑھنے کے بعد میرا دل کہتا تھا کہ تیرہویں صدی میں کلیسا میں تبدیل کی جانے والی یہ مسجد اُس بندہَ مومن کے ہاتھوں سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گی جس کے لیے علامہ نے کہا تھا:

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کار کُشا، کار ساز

لیکن جب دل کی دہلیز پر عقل نے دستک دی تو یہ سوال میرے وجود میں سرایت کرگیا کہ کیا مسلمان کسی ایک بندۂ مومن کے ہاتھ پہ بیعت کرسکتے ہیں؟ یا ہر گروہ کا اپنا اپنا customised بندۂ مومن ہوگا؟

آج رات ہمارا قیام مسجد کے بالکل سامنے والے ہوٹل میں ہے۔ اتفاق سے ہوٹل کا نام بھی Hotel Mezquita یعنی مسجد ہوٹل ہے۔ کھڑکی سے مسجد کی بیرونی دیواریں نظر آرہی ہیں۔ گلی میں عیسائیوں نے پاکستانی اسٹائل کی کرسیاں اور اسٹیج لگایا ہوا ہے لیکن میوزک پرانی ہندوستانی فلموں جیسا چل رہا ہے۔ دل سوز و دلفگار۔ وہ جیسس کی یاد میں نوحے پڑھ رہے ہیں اور میں مسجد کو کلیسا میں تبدیل کیے جانے کا غم منا رہا ہوں۔ ظفر بھائی اس انتظار میں ہیں کہ مسلمانوں کو اسپین میں حکومت مل جائے اور انہیں ان کا کھویا ہوا بٹوہ۔ میرا انتظار ظفر بھائی کے انتظار سے بھی عجیب ہے۔ میری نگاہیں مسجد کی دیوار پر لگی ہیں۔ مجھے لگتا ہے جیسے آج رات علامہ میرے سوالات کا جواب دینے کے لیے مسجد سے نمودار ہوں گے۔ لیکن مسجد کے باہر شراب کی کثرت دیکھ کر لگتا ہے کہ اقبال سے پہلے غالب سے ملاقات ہوگی۔

نجم سہروردی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نجم سہروردی

نجم سہروردی دی نیوز انٹرنیشنل، ایکپریس ٹریبیون اور انگریزی چینل ٹریبیون 24/7 میں بطور رپورٹر، سب ایڈیٹر اور نیوز پروڈیوسر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان دنوں لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ''مذہب، قانون اور معاشرے" کے موضوع پر ماسٹرز کر رہے ہیں

najam-soharwardi has 7 posts and counting.See all posts by najam-soharwardi