سائنسی زوال سے کمال تک کیسے پہنچا جائے


یہ جان کر تو خوشی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی سائنسی پسماندگی کا احساس ہوگیا ہے۔ مسلم دنیا میں کئی دہائیاں پہلے سے سائنسی تحقیق کے ادارے اور یونیورسٹیاں قائم ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ادارے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں قائم ہوئے۔ صرف ہمارے ملک پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد 200 سے بڑھ گئی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ 4 دہائیوں میں بڑھی ہے۔ یونیورسٹیوں کے علاوہ شعبہ جاتی تحقیقی ادارے بھی پاکستان میں کافی ہیں۔

لیکن ان تمام اداروں میں کوئی ایسا تخلیقی کام نظر نہیں آتا۔ جس سے دنیامیں پاکستان کا نام روشن ہوا۔ ترکی اور ملائیشیاء کی جامعات میں اونچے درجہ کی تحقیقات ہوتی نظر آتی ہیں۔ مصر، سعودی عرب اور ایرانی یونیورسٹیوں کا نام بھی کبھی کبھار رینکنگ میں آجاتا ہے۔ تحقیق و تخلیق میں مغرب کے برابر آنے کے لئے ابھی مسلمانوں کو لمبا سفر طے کرنا ہے۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم مغرب کے برابر کبھی بھی نہیں آسکتے۔ کیونکہ وہاں کے تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں اپنی موجودہ پوزیشن سے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

مغرب دنیا بھر کے ذہین طلباء کو مالی سہولیات فراہم کرکے اپنے اداروں میں کھینچ لاتا ہے اور پھر ان کی تحقیق سے یہ ممالک خود ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تحقیق وتخلیق کے لئے جیسا کھلا ماحول مغرب میں ہے۔ مسلم دنیا میں وہ صورت حا ل نہیں ہے۔ مغربی معروف یونیورسٹیاں ہیں بھی صدیوں پہلے کی۔ جب کیمبرج آکسفورڈ، ہارورڈ اور ایم۔ آئی۔ ٹی جیسے تعلیمی ادارے قائم ہورہے تھے۔ تب مسلمان بادشاہ باغات اور مقبرے تیار کرارہے تھے۔

برصغیرمیں مسلمانوں کی حکومت مجموعی طورپر ایک ہزارسال رہی لیکن ریاستی سطح پر تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ مغلوں اور عثمانیوں کا بہت ساوقت جنگ وجدل میں گزرتا باقی ماندہ وقت وہ اپنے حرم میں گزارتے۔ اکبر ایس احمد نے عثمانی بادشاہوں کے حرم میں سینکٹروں خوبصورت خواتین کا ذکر کیا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ سلطنوں کا عروج فتوحات سے دیکھا جاتاتھا۔ اب ایسا نہیں۔ کبھی یونانی، رومی، عرب اور تاتاری صرف فتوحات کی بنا پر عروج پر تھے۔

اب قوموں کی ترقی کو سائنس اورٹیکنالوجی کی تخلیقات اور معیشت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ جائزہ لیاجاتا ہے کہ کسی قوم نے علمی اور سائنسی لہاظ سے دنیا کو کیا دیا ہے۔ اگر کوئی تہذیب تخلیقی اور ذہنی لہاظ سے برتر ہے تو وہ دوسری تہذیبوں سے برتر شمار ہوتی ہے۔ اس کا احترام و وقار مستحکم رہتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کسی قوم کی میراث شمار نہیں ہوتی۔ جو قوم بھی اس شعبہ میں آگے بڑھنے کا ارادہ کرلے وہ اپنے اور دنیا کے حالات کو بدل سکتی ہے۔

مغرب سے بہت دور مشرق میں جاپان، جنوبی کوریا اور چین واقع ہیں۔ اب یہ ممالک بھی ترقی یافتہ شمار ہوتے ہیں۔ وہاں کی یونیورسٹیاں بھی دنیا کو علمContributeکررہی ہیں۔ جنوبی کوریا اور چین نے گزشتہ 4 دہائیوں میں حیران کن کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ آج کل چین دنیا میں سب سے زیادہ انجینئرز پیدا کررہا ہے۔ مغرب میں امریکہ، کینڈا، برطانیہ اور فرانس میں انجینئرنگ کے شعبہ پر زیادہ تر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ لیکن چین میں 40 % انجینئرز خواتین ہیں۔

طلباء کا رجحان اب چینی یونیورسٹیوں کی طرف تیزی سے ہورہا ہے۔ کیونکہ وہاں بھی اعلیٰ درجے کی تحقیق ہورہی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی ایجادات و تخلیقات کا تعلق صرف فرنگ سے نہیں ہے۔ بلکہ جو قوم بھی ایجاد کی لذت محسوس کرنے لگ جائے وہ نئے سے نئے طریقے اور اشیاء بناتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے دانائے راز نے اسی بات کو ایک خوبصورت شعر میں بیان کیاہے۔

حکمت اشیاء فرنگی زاد نیست

اصل اوجز لذت ایجادنیست

مسٔلہ صرف لذت تحقیق وایجاد کاہے۔ ہم مسلمانوں کو بھی اس لذت تحقیق وایجاد سے لطف اندوز ہونے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کا ایک سنہرا دور گزرا ہے۔ اسی دور سے یورپ نے بھی بے شمار فائدہ اٹھایا ہے۔ عراق، سپین اور مراکش کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے یورپین اسی طرح فائدہ اٹھاتے تھے۔ جیسے آج کل کی دنیا برطانیہ اوریو۔ ایس۔ اے کے تحقیقی اداروں کی طرف رخ کیے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کو ایک کام بڑے پیمانے پر کرنا ہے۔

یہ کام ہے ذہانت اور سرمایہ کو اکٹھا کرنا۔ مغرب میں یہ کام سولہویں صدی سے ہی شروع ہوگیاتھا۔ اب مسلمانوں نے بنیادی سائنسی ادارے تو بنا لئے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تعداد بھی مسلم دنیا میں بڑھ کر ہزاروں تک چلی گئی ہے۔ اب ذہین مسلم نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر تحقیق وتخلیق کے مختلف پروجیکٹس سپرد کیے جائیں۔ ریسرچ بڑے پیمانے پر فنڈ چاہتی ہے۔ تاکہ پروجیکٹ سے متعلقہ تمام سازوسامان فراہم ہوسکے۔ لائبریریوں میں جدید ترین کتب اور لیبارٹریوں میں جدید ترین آلات کی فراہمی تحقیق کے لئے ضروری ہے۔

پروجیکٹس پر جتنے بھی سائنسدان کام کررہے ہوں۔ ان کی تمام مالیاتی ضرورتیں ریاست اور معاشرہ پورا کرے۔ کوئی بھی مالی پریشانی سائنسدانوں اور انجینئرز اور محقیقین کو نہ ہو۔ ان کی پوری توجہ صرف اپنی تخلیق وایجاد پرہو۔ ریسرچ کے لئے چناؤ صرف اور صرف میرٹ پرہو۔ چند دہائیاں اگر مسلم ممالک ایسے پروجیکٹس کو سپورٹ کرتے رہے تو مسلم دنیا میں بھی نئی سائنس اور ٹیکنالوجی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی۔ اس طرح کے تجربات شاہ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس وٹیکنالوجی سعودی عرب، مصدر انسٹیٹیوٹ متحدہ عرب امارات اور قطر میں قائم ایجوکیشن سٹی کی امریکی یونیورسٹیوں میں ہوچکے ہیں۔

ان اداروں نے کافی بہتر نتائج دیکھائے ہیں۔ ریسرچ میں بڑے پیمانے پر رقومات صرف ہوتی ہیں۔ ملائیشیاء کی ملایا یونیورسٹی اور سین یونیورسٹی نے بھی تحقیق وتخلیق سے دنیا کو بہت ساعلم دیا ہے۔ ان دونوں یونیورسٹیوں میں بنیادی قدرتی سائنسز پر اونچے درجے کا کام ہورہا ہے۔ شریف یونیورسٹی ایران کانام بھی دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتا ہے۔ ترک یونیورسٹیوں کی طرف بھی طلباء کا رجحان وہاں کے علمی ماحول کو واضح کرتا ہے۔

مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں میں داخلے سے پہلے طلباء میں تخلیقی اور جدتی ذہن پیداکرے۔ اس کے بعد وہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں کوئی بڑا سائنسی کارنامہ سرانجام دے سکیں گے۔ میٹرک اور ایف۔ ایس۔ سی سطح پر نمبرز گیم کا خاتمہ ضروری ہے۔ طلباء میں سوال کرنے کا رجحان پیدا کرناضروری ہے۔ تاکہ ان کے ذہنوں میں سائنس کے تصورات بالکل واضح ہوسکیں۔ آج ہی کے اخبارات میں عالمی سطح پر QS 2019 یونیورسٹیوں کی رینکنگ شائع ہوئی ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کا معیار ہم اونچا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ان تینوں تعلیمی اداروں کاتعلق اسلام آباد سے ہے۔

PIEASکانمبر 397

NUSTکانمبر 417

QA Universityکانمبر 551 ہے۔

یہ صورت حال آئیڈیل تو نہیں ہے۔ لیکن پہلے سے بہتر ہے۔ ہم مسلم ملکوں میں ملائیشیاء، ترکی، مصر، سعودی عرب، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور قطر کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے کام کو کافی بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیق میں مغرب کے برابر آنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کرۂ ارض پر ہم دوسری بڑی قوم یعنی ایک ارب اور 60 کروڑشمار ہوتے ہیں۔ 56۔ آزاد ریاستیں ہیں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمارا سائنسی اور تکنیکی حصہ دنیا میں بہت ہی کم ہے۔ سائنس میں اب تک مسلم ممالک کے ماہرین نے صرف 3۔ نوبل انعام جیتے ہیں۔ جو اتنی بڑی آبادی کے لئے برائے نام ہی ہیں۔

1۔ عبدالسلام 1979 پاکستان، فزکس

2۔ احمدذیویل 1999 مصر، کیمسٹری

3۔ عزیزسنکار 2015 ترکی، کیمسٹری

مسلم ممالک میں بہت کم تعداد میں لوگ سائنسی اور تکنیکی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ 2015 ء کے ایک سروے کے مطابق دس لاکھ لوگوں میں سے صرف چند سو لوگ تحقیق وتخلیق کاکام کررہے تھے۔ مصر 1131، ملائیشیاء 1785، پاکستان 400، ترکی 1270۔

سابقہ سالوں میں یہ تعداد لازماً بڑھ چکی ہوگی۔ مغربی ملکوں میں کتب بینی کارواج اب بھی بہت زیادہ ہے۔ جب سے جرمنی کے موجدگٹن برگ نے 1466 میں چھاپہ خانہ ایجاد کیاتھا تب سے اس کا سب سے زیادہ فائدہ یورپ اور امریکہ والوں نے اٹھایا ہے۔ لائبریریاں بڑے پیمانے پر وجود میں آئیں۔ پرانے یونانی، رومی اورعربی مسودات کو چھپی ہوئی کتاب کی شکل دے دی گئی اور لاکھوں کی تعداد میں کتابیں دوردراز علاقوں تک پہنچ گئی۔ یورپ کی تیز سائنسی اور علمی ترقی میں اس چھاپے خانے کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔

مسلم ممالک کوبھی اپنے عوام میں کتب بینی کارجحان پیداکرنا چاہیے۔ میڈیا کو سائنسی پروگرام تشکیل کرکے زیادہ سے زیادہ نشرکرنے چاہیے۔ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ ٹی وی والے کسی سائنسدان اور ماہر کو بلا کراس کے شعبہ میں ہونے والے تحقیقی کام پر گفتگو کررہے ہوں۔ یہ کام پوری مسلم دنیا میں ہونا ضروری ہے۔ آج سے 5۔ صدیاں پہلے تک بغداد دمشق، قاہرہ اور قرطبہ علم وادب کے مراکز شمار ہوتے تھے۔ اب تمام مسلم دنیا کے شہریوں کو آگے بڑھنا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیقات سے ہی ہمارا اعتبار دنیا پر قائم ہوگا۔ اپنی ٹیکنالوجی کو اپنے ملک کی صنعتی ترقی میں استعمال کرکے ہم اپنی معیشتوں کوبہتر بنا سکتے ہیں۔ مجموعی طورپر مسلم ممالک صرف (۔ 5 ) %اپنی G۔ D۔ Pکا تحقیق وتخلیق پر خرچ کررہے ہیں۔ صرف ملائیشیاء اپنی قومی آمدنی کا ( 1 ) %خرچ کرتا ہے۔ اسی لئے ملائیشیاء کا نام سائنس میں کافی جانا جاتا ہے۔ پاکستان تو اپنی قومی آمدنی کا صرف (۔ 2 ) %خرچ کرتا ہے۔ پاکستان جیسے بڑے ملک کے لئے اپنی تعلیم وتحقیق پر فنڈز میں کئی گنا اضافہ کرنا ضروری ہے۔ مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں میں آپس میں رابطے کے لئے کئی ادارے موجود ہیں۔ مسلم دنیا کی سائنس پر ایک رپورٹ 2015 میں شائع ہوئی تھی۔ ہم آخر میں اس کی سفارشات پیش کرتے ہیں۔

1۔ یونیورسٹیوں کے سائنسی نصابات کا جائزہ لیاجائے اور اسے Updateکیاجائے۔ یورپ اور امریکی یونیورسٹیوں کے برابر نصابات کامعیار ہوناضروری ہے۔

2۔ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لئے سفارش کلچر ختم کیاجائے۔ داخلہ صرف اور صرف میرٹ کے اصولوں کے مطابق ہو۔ جس کا حق بنتا ہے صرف اسے داخلہ ملے۔

3۔ تدریس کے جدید اور ماثر طریقے استعمال کیے جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے سنگاپور یونیورسٹی نے اپنا پورا تعلیمی نظام تبدیل کردیا ہے۔ ایسے اداروں سے مسلم ادارے بھی فائدہ اٹھائیں۔

4۔ ہرعلاقے میں یونیورسٹی اوروہاں کی سوسائٹی کے درمیان معاہدہ ہو۔ تاکہ اس سوسائٹی کو درپیش مسائل کاحل یونیورسٹی دے سکے۔

5۔ یونیورسٹیوں کو مکمل انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے جائیں۔

6۔ معاشرے کو حق ہونا چاہیے کہ وہ یونیورسٹی کا احتساب کرسکے۔ اس کی کارکردگی جانچ سکے۔

7۔ پوری قوم کو درپیش صنعتی، زرعی اور معاشی مسائل کا ماثر اور بروقت حل بتانا یونیورسٹی کے ذمہ ہو۔

8۔ معاشرے کے ماثر نمائندوں کو یونیورسٹی انتظامیہ میں شامل کیاجائے۔ لیکن سیاسی مداخلت سے یونیورسٹیوں کوبچایا جائے۔

ریاستی اور معاشرتی سطح پر اگر ہم یہ تمام کام کریں گے تو ہم نہ صرف مغرب کے برابر بلکہ اس سے آگے بھی جاسکتے ہیں۔ جیسے کہ اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ذہانت اور سرمایہ کو اکٹھا کرنا تخلیق اورجدت ترازی کے لئے ضروری ہے۔ مسلم ممالک کے سرمایہ داروں کو اپنے سرمائے کا رخ تعلیم وتحقیق کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ پاکستان کے بڑے صنعتکاروں، نشاط گروپ۔ لکی گروپ اور عارف حبیب گروپ کو بھی تحقیق وتخلیق جیسے لازمی کاموں میں سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے۔ مسلم سائنسی زوال کو کمال میں تبدیل کرنا کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).