میں اب تعلیم جاری نہیں رکھ سکوں گا


پچھلے کچھ دنوں سے جہاں پاکستان کی سیاسی صورتحال انتہائی حد تک عدم توازن کا شکار دکھائی دیتی ہے وہاں جامعات کے طلباء و طالبات کی ایک کثیر تعداد حکومت کی جانب سے نئی جاری کردہ تعلیمی پالیسیوں پر انتہائی ناخوش ہونے کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں کے برعکس تعلیم جاری رکھنے کے متعلق عجیب ہیجان کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

یہ تسلسل پچھلے کئی دنوں سے زور و شور سے طلباء میں توازن کی حدوں کو عبور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آج صبح موصوف کو اپنے طلباء کے کچھ مایوس کن پیغامات پڑھنے کو ملے جن میں تعلیمی بجٹ میں کمی، نئے داخلوں پر فیسوں میں دوگنا اضافہ، تمام جامعت میں میرٹ کی بنیاد پر دیے جانے والے وظیفوں پر پابندی، نئی عمارتوں کی تعمیر اور نئے داخلوں میں کمی پر محیط چند اخباری سرخیوں کے سکرین شاٹس کو انتہائی مایوس الفاظ میں پرو کر بھجا گیا تھا۔

موصوف نے ان پیغامات کے جواب میں وہی جھوٹے دلاسوں کی پالیسی کو اپناتے ہوئے طلباء کو جھوٹی تسلیاں دینے پر اکتفاء کرنا چاہا لیکن طلباء کا ان پالیسیوں پر غصہ حد سے تجاوز کرتا محسوس ہوا۔ ان میں سے ایک طالب علم ایسا بھی تھا جو اپنے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کی بدولت راولپنڈی کے پیرودہائی اڈے کے عقب میں میں واقع سبزی منڈی میں روزانہ صبح پانچ سے آٹھ بجے تک مزدوری کرتا تھا۔ مصروف پچھلے تین سالوں سے اسے تعلیم کی افادیت پر لیکچر دینے اور ایک اچھے مستقبل کے متعلق اس لے جذبات کو بلند کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہا ہے۔

ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر جب اس کے کانوں میں یہ الفاظ گونجے کہ بھائی گبھرائیں نہیں، ڈٹے رہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا تو اس دفعہ انہوں نے آپے سے باہر ہوتے فرمایا: ”سوری سر، میں اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکوں گا“۔ ہمیں بھی پچھلے تین سالوں سے کی گئی محنت داؤ پر لگتی دکھائی دی لیکن آخر کار آئیں، بائیں، شائیں کرتے ہوئے ہم انھیں ”ویک اینڈ“ کو انجوائے کرنے اور سوموار تک اس بحث کو موخر کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔

تعلیم اور صحت کے نام پر پاکستان کی پینسٹھ فیصد سے زائد نوجوان نسل کو الؤ بنا کر وؤٹ لینے والی اس حکومت کو نئی تعلیمی پالیسیز میں طلباء کے وظیفوں کو منسوخ کرتے یا نئے داخلوں کی فیسوں کو دوگنا کرتے کیوں خیال نہیں آیا کہ پاکستان میں طلباء جامعات جانے سے قبل تعلیم کے حصول کے لیے سبزی منڈیوں میں مزدوریاں کرتے ہیں۔ طلباء کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو روزگار نہ ملنے کی بدولت ان وظیفوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلی تعلیم کے حصول کے ذریعے اپنے آپ کو دلاسے دیے بیٹھی ہے کہ شاید یہی تعلیم ان نوجوانوں کے لیے مسیخہ بن کر انہیں غربت و بے روز گاری کی اس دلدل سے نکالنے میں کارگر ثابت ہو جائے۔

اگر متعلقہ حکام کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی بے حس عوام کو ڈالر کے بڑھنے یا روپے کی قدر کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو ڈریں اس وقت سے جب یہی پینسٹھ فیصد کے قریب نوجوان نسل جو اس نام لیوا نئے پاکستان کو بنانے میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئی، اس پالیسی کے بر عکس اس حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے پر مجبور ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).