کتابیں کیوں پڑھنی چاہئیں


تقریباً ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو۔ اسی وجہ سے ہمیں اپنے عزیزواقارب سے جو دعائیں ملتی ہیں ان میں ایک دعا یہ ہوتی ہے کہ خدا تمہاری عمر لمبی کرے۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ ایک طریقہ ہے جس سے آپ اپنی زندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ شاید کچھ اس طرح کا کہ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے ہم اپنی اوسط عمر میں کوئی غیر معمولی اضافہ کر سکیں۔ پر میرے خیال میں کتابیں پڑھنے سے ہم ایک طرح سے اپنی زندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

زندگی جو فقط حال اور مستقبل نہیں ماضی بھی ہے۔ ماضی جو ہم گذار چکے ہیں، جو ہمارے ذہنوں میں میٹھی تیکھی یادوں، اورخوبصورت و تلخ تجربوں کی صورت میں موجود ہے۔ جب ہم کتابیں پڑھتے ہیں تو ان کے کرداروں کی باتیں، ان کے تجربے اور ان کی یادیں ہمارے ذہنوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہم ان کی خوشیوں میں ہنستے ہیں اور ان کے غموں پر روتے ہیں۔ جب کسی کردار کا دل کوئی غیر معمولی کام کرتے وقت دھڑکتا ہے تو ہمارے بھی دل دھڑکتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے جب ایک مصنف سردی کے موسم کا نقشہ کھینچتا ہے اور ہم گرمیوں میں اس کو پڑھ رہے ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے ہم ٹھٹھر کے رہ جاتے ہیں۔

ہمارے آس پاس آج جو ہو رہا ہے وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور باقی حواسوں سے محسوس کر کے جی رہے ہیں۔ پر ہم تصور کی مدد سے بھی دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح جب ہم کسی کہانی، ناول یا تاریخی کتاب میں کرداروں اور اس کے ماحول کو پڑھتے ہیں توہمارے ذہن میں ان سب کا ایک تصور ابھرتا ہے اور نہ صرف ہم ان کو محسوس کرتے ہیں بلکہ ہم ان کے کسی نہ کسی کردار میں اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔ جب ہم وہ سب کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ایک لحاظ سے ہم اس سب کو تصور کی مدد سے جی رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم بہت سارے لوگوں کی زندگی کو جی سکتے ہیں۔ اس پر خمار بارہ بنکوی کی نظم کی یہ سطریں کتنی موزون آتی ہیں کہ

ایک پل میں ایک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے

دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے

ہم اکثریہ سنتے آئے ہیں کہ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں پر انسان وہ جو دوسروں کے لئے جیے۔ ہم دوسروں کے لیے تب جی سکتے ہیں جب ہم دوسروں کے احساسات کو سمجھ سکیں اور کتابیں اس میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ ہم کتابوں کے مختلف کرداروں کو پڑھ کر ان کے احساسات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور پھر جب حقیقی زندگی میں ہم کسی پریشان حال شخص کو دیکھتے ہیں تو اس کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے اور دوستی کی اس وصف پر کتابوں سے بہتر اور کوئی نہیں اترتا۔ کتابوں سے اچھا کوئی دوست ہو نہیں سکتا۔ انسانوں کی دوستی میں بیوفائی کا امکان رہتا ہے پر کتابوں جیسا دوست کبھی بھی آپ سے بیوفائی نہیں کریگا۔ انسانوں میں کوئی آپ کا کتنا بھی اچھا دوست کیوں نہ ہو پر وہ ہر مصیبت میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا کیوں کہ انسان کے ساتھ کبھی کبھی ایسی مجبوریاں ہوتی ہیں جو اس کو محدود رکھتی ہیں۔ لیکن کتابیں اپنے علم اور رہنمائی کی صورت میں ہر وقت آپ کی مدد کو تیار رہتی ہیں۔

ایک وقت ہوتا تھا جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا اور ٹی وی عام نہیں تھا تب ریڈیو کے علاوہ کتابیں ہماری تفریح اور معلومات کے ذرائع ہوتے تھے۔ تب ہم رسالوں یا کتابوں میں جو اچھی باتیں یا ایک دو اقوال پڑھتے تھے تو ان کی ایک تاثیر ہوتی تھی جو ہمیں اس پر عمل کرنے پر آمادہ کرتی تھی۔ وقتاً فوقتاً ان کو پڑھتے عمل کرتے وہ ہماری شخصیت کو سنوارتے چلے جاتے تھے۔ پھر جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا عام ہوتا گیا تو کتابیں پڑھنے کی یہ روایت دم توڑتی گئی۔ اس کے لیے گلزار صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں

جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں

اب اکثر گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر

سوشل میڈیا پر ہم ہرروز کتنے ہی اقوال اور اچھی باتیں پڑھیں پر ہم ان پر عمل نہیں کر پاتے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک وقت میں ہم پر بہت ساری صحیح یا غلط معلومات کی بوچھاڑ ہو رہی ہوتی ہے جس وجہ سے وہ ہمارے ذہنوں میں کوئی جگہ نہیں بنا پاتے۔ سوشل میڈیا اور کتابوں کے درمیان یہ کمپریزن میں نے اس لیے نہیں کیا کہ میں سوشل میڈیا کے فوائد کا منکر ہوں پر اس لیے کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ا ایسے معاملات میں سوشل میڈیا کی نسبت کتابیں اپنا الگ تاثیر رکھتی ہیں کیونکہ ان میں اقوال یا خیالات کو ایک تمہیدی انداز میں بیان کیا جاتا ہے جس وجہ سے وہ پُراثر بن جاتے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں جگہ بنا کر ہماری شخصیت کو نکھار نے میں مدد کرتے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے فوائد کے علاوہ بھی کتابوں کی بہت افادیت ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا ایک مناسب وقت کتابیں پڑھنے پر بھی صرف کریں۔ تو آئیں آج سے کتابیں پڑھیں تاکہ علم اور شعور پائیں اور کسی شاعر کو یہ نہ کہنا پڑے کہ

کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).