نواز شریف پر ڈیل کے الزامات کی حقیقت!


کچھ تجزیہ نگار نواز شریف اور ن لیگ کے چند راہنماؤں کو ملنے والے عدالتی ریلیف اور حمزہ شہباز کو نیب کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے ملنے والی ضمانت کو کسی ممکنہ ڈیل اور ڈھیل سے تعبیر کرکے نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو والے اصولی بیانیے پر سمجھوتے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں نواز شریف نے اپنی بیماری پر عدالت سے ضمانت لے کر اپنے نظریاتی ہو جانے والے مؤقف کو پسِ پشت ڈال کر ایک مرتبہ پھر ملک کی مقتدر قوتوں کے آگے جھکنے کی روش اپنا کر ن لیگ کے سچے و کھرے کارکنان و قائدین اور حامیوں کو مایوس کیا ہے۔

ان معزز و کہنہ مشق تجزیہ کاروں کی رائے کو بہ نظر احترام دیکھتے ہوئے ہم نواز شریف پر لگنے والے ان الزامات کا انتہائی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ نواز شریف کی سیاست کا آغاز بھٹو کو تختہء دار پر لٹکانے والے آمر مطلق کی چھتر چھایا میں ہوا کیونکہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اس وقت نو آموزو نو وارد سیاست دانوں کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ بہر حال جنرل ضیا کی سرپرستی جب نواز شریف کی فطری سیاسی صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہوئی تو نواز شریف نے بہت تھوڑے وقت میں سیاست میں مثالی کامیابیوں کے ہفت اقلیم سر کر لیے۔ شاید یہ جنرل ضیا کے بھاری احسانات کا احساس ہی تھا جس کے زیر اثر نواز شریف نے جنرل کی ناگہانی مرگ پر اس کے مشن کی تکمیل کا کئی بار اعادہ کیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کو تین بار ملنے والی وزارتِ عظمٰی بھی مقتدر اداروں کے تعاون کی مرہون منت ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تینوں بار وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ نواز شریف سویلین بالادستی پر یقین رکھتے ہوئے کسی کو باپو ماننے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ لہٰذا ہر بار مختلف حیلے بہانے گڑ کے انہیں ذلت آمیز طریقے سے اقتدار سے رخصت کیا گیا۔ تیسری بار تو ریاستی اداروں نے چند دوسرے طاقتور اداروں سے ساز باز کر کے نواز شریف کو نشان عبرت نبانے کی کوشش کی اور انہیں برائے نام سیاست کاری سے بھی بے دخل کردیا۔

اپنے ساتھ ہونے والے اس بیہیمانہ سلوک اور برہنہ ظلم پر وہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر عوام کے پاس آئے۔ عوام کی طرف سے ملنے والی جادوئی پذیرائی نے انہیں پے در پے اور نت نئے مصائب و آلام سے دو چار کردیا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وزارت عظمٰی سے نا اہلی اور سیاست سے تاحیات گلو خلاصی کی ذلت ہی کچھ کم نہ تھی کہ اپنی وفا شعار رفیقہء حیات کو سات سمندر پار بستر مرگ پر چھوڑ کر پابند سلاسل ہونے کے لیے وطن واپسی اور اہلیہ کی دم واپسیں ان کے پاس موجود نہ ہونے کا قلق ان کے لیے کبھی نہ مندمل ہونے والا زخم اور سدا بہار روگ بن گیا۔

اہلیہ کی ہمیشہ کی خاموشی کے بعد جب میاں صاحب بھی خاموش ہو گئے ا اور مریم نواز کے ٹویٹر نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا تو لو گوں نے ان پر الزام لگانا شروع کر دیے کہ وہ مقتدر طاقتوں سے ڈیل کی راہموار کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات تو واجبی سی عقل رکھنے والا آدمی بھی سمجھتا ہے کہ اگر میاں صاحب نے ڈیل ہی کرنا تھی تو سب کچھ لٹا کر کیوں کرتے؟ کم از کم اپنی نا اہلی اورحکومت ہی بچا لیتے۔ پھر جب ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیسوں میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف ملا تو یار لوگوں نے ایک بار پھر ان پر ڈیل کا الزام لگایا۔ اب جب میاں صاحب بیماری کی وجہ سے چھ ہفتوں کی ضمانت پر ہیں تو کچھ لوگوں کی طرف سے اسے بھی ڈیل اور ڈھیل کا تاثر قرار دیا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مقتدر طاقتیں اور ان کے آلہء کار اس لیے بری طرح زچ ہیں کہ وہ اتنے مظالم ڈھانے کے بعد بھی میاں صاحب کو توڑ سکے ہیں، ان کے خاندان کو اور نہ ن لیگ کو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت میں میاں صاحب نے چھانگا مانگا ٹائپ سیاست بھی کی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے طرز سیاست میں تبدیلی آتی گئی۔ ان کے کٹڑ مخالفین تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے تین بار وزیراعظم بننے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تین بار وزیراعظم بننے کے لیے بھی بادشاہ گروں کے علاوہ سیاسی عصبیت بھی از حد ضروری ہے۔

میاں صاحب پر ڈیل کا الزام لگانے والے اتنا تو سوچیں کہ بد ترین حالات میں بھی انہوں نے خفیہ قوتوں سے ہاتھ ملانے کے بجائے عدالتوں میں اپنا کیس لڑ کے ریلیف لیا۔ آج جب بت گروں کے اناڑی گھوڑے نے ملک کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے تو ایسے میں بت گروں کی طرف سے میاں صاحب کو مسلسل ڈیل کی پیشکشیں ہو رہی ہیں مگر وہ چٹان کی طرح ووٹ کو عزت دینے والے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب کو یہ پیشکش بھی ہو چکی ہے کہ وہ ڈیل کر کے کسی بھی ملک میں جا کر علاج کروائیں اور واپسی پر ان کا بے نظیر بھٹو جیسا تاریخی استقبال کیا جائے گا۔ بدلے میں وہ اناڑی گھوڑے والی بدترین سرکار سے ہماری جان چھڑا دیں۔ مگر میاں صاحب بت گروں کے ساتھ تبدیلی والوں کو بھی سبق سکھانا چاہتے ہیں جو ملک میں تبدیلی کے ساتھ مہنگائی، بد امنی، سیاسی عدم استحکام اور نت نئی آفات و بلیات بھی ساتھ لے کر آئے ہیں۔

میاں صاحب کی اصولی سیاست کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ انہوں نے 2013 میں کے پی کے میں سنہری موقع ملنے کے باوجود پی ٹی آئی کا زیادہ سیٹوں کی وجہ سے حق حکمرانی تسلیم کیا ورنہ مولانا فضل الرحمان نے تو مخلوط حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اراکین کا اہتمام کر لیا تھا۔ اسی طرح اپنے دور حکومت میں انہوں نے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں میں بھی ہارس ٹریڈنگ کر کے پی پی کی حکومتیں گرا کر اپنی حکومت قائم کرنے کے مشورے کو سختی سے رد کر دیا تھا۔

ان کے خیال میں جن پارٹیوں کو عوام نے ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا تھا حکومت کرنا ان کا حق تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ووٹ کو عزت دینے کے اصول پر وہ اس وقت بھی سختی سے کاربند تھے۔ 2013 ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود نواز شریف نے صوبے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں مخلوط حکومت بنائی۔ ان کے اس فیصلے کے دور رس نتائج نکلے اور صوبے میں انتظامی، اقتصادی، تعلیمی اور امن و امان کی فضا کے حوالے سے خوش کن اور ٹھوس تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ میاں صاحب کو انہیں عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انہیں کے پاس جارہے ہیں۔ آج تک کسی حکومتی شخصیت یا مقتدر ادارے کے کسی بڑے سے رعایت کی بھیک نہیں مانگی۔ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ وہ مفاداتی اور وقتی نہیں بلکہ اصولی اور کھرے مؤقف پر قائم ہیں۔

اب جب کہ ملک پر جناب عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے تو خود وزیر اعظم اور ان کے حامیوں کو بھی یہ احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ووٹ کو عزت دینے کا سفر کس قدر کٹھن، سفاک اور خطروں سے معمور ہے۔ اس راہ میں اپنے ہی پہرے داروں اور محافظوں کی بے رحم تلواروں اور نیزے بھالوں سے اپنا سر بھی بچانا پڑتا ہے، دستار بھی، سیاسی ساکھ بھی اور عزت سادات بھی۔ ساتھ ہی عالمی سیاست کی بساط پر سجے سازشی مہروں سے بھی بچ کر چلنا پڑتا ہے۔

عوامی خدمت اور فلاح و بہبود کا یہ راستہ نہایت دشوار گزار اور پر خار ہے۔ اتنا مشکل کہ نئے پاکستان کے وزیراعظم پہلے آٹھ ماہ میں ہی پھولے ہوئے سانس کے ساتھ تین مرتبہ اپنا استعفا مقتدر قوتوں کو پیش کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ یہ نواز شریف ہے جو سب کچھ لٹانے کے بعد، سب کشتیاں جلانے کے بعد بھی ووٹ کو عزت دینے کی وادیء پر خار میں تن تنہا کھڑا اپنوں اور بیگانوں کے سنگِ دشنام اور تیرِ الزام کھا کر بھی مسکرا رہا ہے۔ جمہوریت کے قافلے کے اس جرّی، نڈر اور اولوا العزم سپاہی پر کسی ڈیل، ڈھیل یا اصولوں پر سمجھوتے کا الزام لگانا بہت بڑی زیادتی ہے۔

ردر کی ریت چھان کر جینا

کتنا مشکل ہے جان کر جینا

رہنا سر کش ہواؤں کی زد میں

اور پھر سینہ تان کر جینا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).