پاک بھارت تعلقات کے لئے دھچکا


\"????????????????????????????????????\"

بھارتی وزیراعظم نریند مودی کے دورہ لاہور کے ٹھیک ایک ہفتے بعد پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائی مستقر پر حملہ محض دہشت گردی کا ایک واقعہ نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والی گرمجوشی کو سبوتاژکرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش نظر آتی ہے ۔ بھلاہو دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کا کہ جنہوں نے اس سازش کو بروقت بھانپ لیا اور مذاکراتی عمل معطل کرنے کے بجائے اس عزم کااظہار کیا کہ دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کرتعلقات کی بہتری کے سفر کو روکا جائے گا اور نہ ہی سست کیاجائے۔
پٹھان کوٹ کا واقعہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ پاک بھارت کشیدگی کو ہوا کر پاکستان کی توجہ ضرب عضب سے ہٹانے کی ایک شعوری کوشش بھی ہے ۔نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب نے پاکستان کے دشمنوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ چھپتے پھر رہے ہیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے انہوں نے نونہال قوم کو خون میں لت پت کرکے سمجھا تھا کہ اہل پاکستان کے اعصاب شل ہوجائیں گے لیکن اللہ تعالے کے فضل و کرم سے پاکستان کی حکومت ،عوام اور قومی سلامتی کے اداروں نے پہلے سے زیادہ قوی عزم اور حوصلہ سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور سرخ رو ہوئے۔
پاکستان کے مشکلات پیدا کرنے اور اسے جنگ میں الجھنے کے لیے دہشت گرداور ان کے حامی عناصر موقع کی تاک میں ہیں۔افغانستان کے اندرجاکر حملے کرتے ہیں اور واپس آکر پاکستان میں غائب ہوجاتے ہیں۔ مفت میں پاکستان بدنام ہوتاہے۔وہ جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات ایک حساس اور جذباتی معاملہ ہے۔ذرا سی غلط فہمی قوم میں ہیجان پیدا کردیتی ہے ۔بھارت میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے جس کی سیاست پاکستان دشمنی کے نعرے سے چمکتی ہے۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ پاکستان کی فوج جو افغانستان کی سرحد پر دہشت گردوں کے راستے میں چٹان بن کر کھڑی ہے اور ملک کے چپے چپے پہ ان کا تعاقب کررہی ہے کی توجہ بٹ جائے۔وہ بھارت کے ساتھ محاذ آرائی میں ا لجھ جائے اور پاکستان داخلی طور پر کمزور ہوجائے تاکہ انہیں اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے۔
کراچی اورملک کے مختلف حصوں سے داعش کے حامیوں کا ابھرنا اور داعش کی صفوں میں شامل ہوجانا تعجب کی بات نہیں۔شدت پسند گروہوں کا یہی خاصہ ہے۔ ایک راستہ بند ہوتا ہے تو وہ کوئی دوسری راہ نکال لیتے ہیں۔وہ شام اور عراق کی جانب رواں دواں ہیں لیکن پاکستانی شدت پسند شام اور عراق سے محض اخلاقی اور روحانی فیض پاتے ہیں ان کی اصل منزل پاکستان میں انتشار پیدا کرنا اور اقتدار کے مراکزپر قبضہ جماناہے۔القاعدہ پر پاکستان نے جو ضرب کاری لگائی ہے وہ اسے بھول نہیں پارہی ۔ان کے حامی آج بھی ملک کے اندر اورباہر پاکستان سے بدلا لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ انہیں پاکستان کے حریفوں کی مدد بھی دستیاب ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائزہوتاہے۔بدقسمتی سے اسلام آباد کے قلب میں بیٹھ کر ایک امام مسجد ریاست کی عمل داری کو للکارتے ہیں اوروزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان مہر بلب ہیں۔کہتے ہیں کہ میں مدارس کے آٹھ ہزار طلبہ کے خلاف ایکشن نہیں کرسکتا۔ مدارس کے طلبہ کے خلاف ایکشن ہرگز ایکشن نہ کریں لیکن جو شخص ریاست کی عمل داری کو سرعام چیلنج کرتاہے اسے بلاخوف وخطر پکڑیں اور قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں۔
دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور کوئی بھی ملک تنہاان عناصر سے نمٹ نہیں سکتا۔مسلم ممالک کی سلامتی کو خاص طور پر انتہاپسندوں سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ دہشت گرد نیشن اسٹیٹ کے جدید تصور کو تسلیم نہیں کرتے ۔شام اور عراق میں آئی ایس آئی ایس نے اپنی سلطنت قائم کرنے کی خاطر جس طرح بے گناہ شہریوں کا خون بہایا وہ دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کے بجائے اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔جو ایک اژدھا کی مانند ان کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو اظہار ہمدردی کا فون کیا اور ان کی فراہم کردہ معلومات پر سخت ایکشن کا حکم بھی جاری کیا۔دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین بھی رابطہ ہے اور وہ مسلسل معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں۔اس مرتبہ مودی سرکارنے خلاف معمول تحمل کا مظاہرہ کیا اور غیر ضروری بیان بازی سے اجتناب بھی کیااور اپنے پیشرو کے برعکس جلد بازی میںمذاکرات کی معطلی کا فیصلہ کرنے کے بجائے سیکرٹری خارجہ کے دورہ اسلام آباد پر قائم رہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے سینئر دفاعی اور سیاسی ماہرین اب یہ تجویز بھی دے رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے سلامتی کے متعلقہ ادارے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے معلومات کا تبادلہ کریں۔پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اطلاعات کے تبادلہ کا ایک نظام کار وضع کیا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنا آنا شروع ہوگئے ہیں۔مذاکراتی عمل میں اگر کشمیر پر پیش رفت ہوتی ہے تو پاکستان اور بھارت بھی دہشت گردوں کے خلاف معلومات کے تبادلے کا میکانزم وضع کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے اور ان کے پس منظر میں کارفرما سیاسی اور مذہبی فکر کو کند کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو تنازعات کے حل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ لوگوں کو مذاکراتی عمل سے امید پیدا ہو اور وہ اس کا حصہ بن سکیں۔
پٹھان کوٹ حملے پر سب سے زیادہ حیرت متحدہ جہاد کونسل کے ردعمل پر ہوئی۔مظفرآباد سے روزنامہ ڈان کے طارق نقاش کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جہاد کونسل کے سیکرٹری جنرل شیخ جمیل الرحمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرکے حکومت پاکستان کو زبردست مشکلات سے دوچارکردیا ہے۔وزیراعظم پاکستان کو ایک کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ وہ دنیا بھر سے وعدہ کررہے ہیں کہ کسی بھی گروہ کوپرتشدد واقعات کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے تو دوسر ی طرف ایک شخص مظفرآباد میں بیٹھ کر ان کا منہ چڑھارہاہے۔اس جرا¿ت پر وزیراعظم نوازشریف بھی حیرت زدہ رہ گئے ہوں گے۔

ارشاد محمود سینئر صحافی ہیں۔ ان سے ershad.mahmud@gmail.comپر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments