حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا، کوئی چونکا نہیں


\"ramishہر حادثے کے بعد ہم سنتے ہیں کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے، دشمن کہاں چھپا بیٹھا ہے اور کب کہاں سے کتنا اوچھا وار کر دے کسی کو خبر نہیں لیکن کیوں؟ حالتِ جنگ میں ہیں تو چوکنا رہنا بھی ہمارے محافظوں کا کام ہے نا. ابھی دھماکے کی نوعیت کا تعین ہونا باقی تھا کہ جناب وزیراعلی بلوچستان کو بہت دور کی سوجھی کہ یہ دشمن ملک کی سازش ہے اور وہ ثبوت بھی فراہم کریں گے۔ صاحب کیا اس بیان کے بعد مقتولین کے گھر والے آپ سے اتنا سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ کو کسی کے دھماکے میں ملوث ہونے کا علم ہے ثبوت کی موجودگی کا دعوی ہے تو آپ نے آخر روکا کیوں نہیں؟ کیوں یہ سب ہونے دیا؟ سیاسی بیان بازیوں میں وہ بھی پیچھے نہیں رہتے جنہیں لگتا ہے کہ ایسا ہر سانحہ کسی خاص موقع مثلاً احتجاج، دھرنے وغیرہ کے موقع پہ ہوتا ہے۔ سیاست شاید اسی بےرحمی کا نام ہو گی مگر مقتولین کے ورثاء کو پرسہ دینا سیاست سے زیادہ اہم ہے، یہ کبھی بھی چمکائی جا سکتی ہے مگر قومی سانحے پہ سیاست چمکانا پہلے سے چھوٹے قد کو کسی کی نظروں میں مزید بھی گھٹا سکتا ہے۔ آپ کسی کے دکھ میں شریک نہیں ہو سکتے، کسی کا درد نہیں بانٹ سکتے تو کم از کم اپنی بےحسی سے اس کی تکلیف میں اضافے کا سبب تو نہ بنیں۔

مذمت کرنا، ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا دعوی کرنا اور پھر اگلے سانحے تک سب بھلا دینا ہی ریت ہے۔ اگلے سانحے پہ پھر یہی سب کریں گے، اعلی حکام ہسپتال کا دورہ کر کے زخمیوں کی خیریت دریافت کریں گے چاہے ایسے دوروں کے باعث ہسپتال کا کام ٹھپ ہو جائے، مقتولین کے گھر تعزیت کے واسطے جائیں گے، تصاویر بنیں گی، بیان داغے جائیں گے اور پھر آہستہ آہستہ گرد بیٹھ جائے گی۔ ہمیں پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ دعائے مغفرت، حرفِ تسلی، مذمت، امداد کا چیک یا رتبۂ شہادت کسی انسان کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ وہ لوگ گھر سے کوئی کفن باندھ کر نہیں نکلے تھے، نہ کسی ادارے یا تنظیم کا حصہ تھے جو انہیں شہید کہہ کر ہم خود کو یا ان کے گھر والوں کو تسلی دینا چاہ رہے ہیں۔جب تک انسانی جان کی حرمت کا احساس ہمارے دل میں بیدار نہیں ہو گا، جب تک ہم کوئٹہ سے سینکڑوں میل دور بیٹھے بھی اس درد کی شدت کا احساس نہیں کر سکتے جو کسی اپنے کو کھونے پہ ہوتا ہے تب تک سب الفاظ بےکار ہیں، اس احساس کے جاگنے تک یہ گمان کرنا بھی بےکار ہے کہ کسی روز بات زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات تک پہنچے گی۔

سچل سرمست صحیح کہتا تھا اس تیری گلی میں اے دلبر ہر ایک کا سر قربان ہوا، اب مگر ہزاروں قربانیوں کے بعد کیا ہم سوال کر سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تھمے گا؟اس سے بڑھ کر اذیت اور کیا ہو کہ بلوچستان کے کٹھن حالات میں کچھ لوگ تعلیم کا راستہ چنتے ہیں، گھر سے روزی روٹی کمانے نکلتے ہیں اور پھر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ تابوت کم پڑ جاتے ہیں، سانحوں کا شمار کرتے کرتے گنتی ختم ہو جاتی ہے، ماؤں کی گود سونی ہو جاتی ہے، سہاگ اجڑتے ہیں،بچے یتیم ہو جاتے ہیں، گھر کا واحد کفیل رخصت ہوتا ہے اور جن کو تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے انہیں انسانوں سے زیادہ راہداریوں کی فکر ہوتی ہے۔کوئٹہ کیلئے خون ریزی کوئی نئی بات نہیں، پاکستان کیلئے ایسا سانحہ کوئی نئی بات نہیں رہی اور سانحے کا معمول بن جانا ہی دراصل سب سے بڑا المیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments