ملاوی: ملیریا سے بچاؤ کی پہلی ویکسین کا تجرباتی استعمال شروع


ملیریا

ملاوی میں ملیریا سے بچاؤ کی ویکسین پلانے کا تجرباتی پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی پہلی ملیریا ویکسین ہے جو بچوں کو اس بیماری سے جزوی تحفظ فراہم کرے گی۔

ماہرین کے مطابق آر ٹی ایس ایس نامی ویکسین جسم کے دفاعی نظام کی اس طرح تربیت کرے گی کہ وہ ملیریا کے جرثوموں پر حملہ آور ہو سکے۔ یہ جرثومے مچھر کے کاٹنے سے پھیلتے ہیں۔

اس سے پہلے ہونے والے تجربوں میں دیکھا گیا ہے کہ تقریباً پانچ سے 17 ماہ کی عمر کے 40 فیصد بچے جن کو یہ ویکسین پلائی گئی تھی وہ محفوظ رہے۔

اس موذی مرض پر ایک دہائی پر محیط کامیابی سے کنٹرول کے بعد ملیریا کے کیس ایک مرتبہ پھر بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ویکسینیشن: سات غلط فہمیاں جنھیں دور کرنا ضروری ہے

پولیو مہم کے خلاف ’سازش‘، 12 افراد پر مقدمہ

نیویارک میں خسرہ کی وبا پھیلنے سے ایمرجنسی کا اعلان

حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ملیریا کے کیس اب مزید کم نہیں ہو رہے ہیں اور یہ حقائق اس بیماری کے لوٹ آنے کے حوالے سے خدشات کو بڑھا رہے ہیں۔

ملاوی ان تین ممالک میں ایک ہے جسے اس ویکسین کا تجربہ کرنے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد دو سال اور اس سے کم عمر کے ایک لاکھ 20 ہزار بچوں کو ویکسین پلانا ہے۔ آئندہ ہفتوں میں گھانا اور کینیا میں بھی یہ ویکسین متعارف کرائی جائے گی۔

آئی ڈی ٹی

ملیریا کتنا بڑا مسئلہ ہے؟

ہر سال دنیا بھر میں 4 لاکھ 35 ہزار افراد ملیریا کے باعث ہلاک ہوتے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ زیادہ تر اموات افریقہ میں ہوتی ہیں جہاں عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سالانہ 2 لاک 50 ہزار بچے ملیریا کے ہاتھوں جان کی بازی ہارتے ہیں۔

یہ ویکسین تجرباتی بنیادوں پر پہلی مرتبہ سنہ 2009 میں دی گئی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈیوڈ شیلن برگ کا کہنا تھا کہ ’بڑے پیمانے پر ہونے والے اس ٹرائل میں سات ممالک کے 15 ہزار سے زیادہ بچے حصہ لے رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ٹرائل سے یہ بات بہتر انداز میں عیاں ہوئی ہے کہ ویکسین کلینکل ملیریا اور شدید ملیریا کی روک تھام میں موثر اور محفوظ ہے۔‘

ویکسین میں نیا کیا ہے؟

تجرباتی بنیاد پر ان تین ممالک کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیوںکہ یہ بڑے پیمانے پر ملیریا کی روک تھام کے پروگرام پہلے ہی چلاتے ہیں اور اس کے باوجود یہاں ملیریا کے کیسز زیادہ ہیں۔

آر ٹی ایس ایس گزشتہ تین دہائیوں سے تیاری کے مراحل میں ہے اور سنہ 1987 سے دوا ساز کمپنی ’جی ایس کے‘ کے ماہرین یہ ویکسین بنا رہے ہیں۔

لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے اخراجات اور برس ہا برس سے جاری اس ویکسین کے تجرباتی استعمال کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے۔

اگرچہ دوسری بیماریوں کے خلاف موثر ثابت ہونے والی ویکسینز کی طرح یہ نئی ویکسین بھی 40 فیصد تک موثرہو سکتی ہے، تاہم ڈاکٹر ڈیوڈ شیلن برگ کا کہتے ہیں کہ ’کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ جادو کی گولی ہے۔‘

’یہ سننے میں شاید بھلا نہ لگے لیکن ہم بات شدید ملیریا میں 40 فیصد کمی کی کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر آپ کے پاس اچھے علاج کی سہولت میسر ہے بھی تو اس میں اموات کی شرح زیادہ ہے۔‘

اس ویکسین کو ایک بچے کو چار مرتبہ دیا جائے گا، پہلے تین ماہ میں ہر ماہ اور چوتھی خوراک اس کے 18 ماہ بعد۔

ڈاکٹر شیلن برگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض علاقوں میں بچوں کو چار خوراکیں پوری کرنے کے لیے طبعی مراکز لے جانا ایک چیلنج ہو گا۔ کمپنی پاتھ کے مطابق امکان ہے کہ موجودہ ٹرائل سنہ 2023 تک مکمل ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp