کرشمہ علی: فٹبال کے شوق کے لیے لڑکیاں چار گھنٹے پیدل چل کر آتی تھیں


پاکستان کے پسماندہ شمالی ضلعے چترال میں اپنی جیسی لڑکیوں کو فٹبال جیسے کھیل کے مواقع فراہم کرنے کی انتھک کوششوں کا صلہ 21 سالہ کرشمہ علی کو بین الاقوامی افق پر پہچان کی صورت میں ملا ہے۔

امریکی جریدے فوربز نے انھیں ایشیا کے 30 برس سے کم عمر ان 30 افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کا مستقبل تابناک اور وہ نوجوانوں کے لیے مثال ہیں۔

کرشمہ علی خود بھی فٹبال کی کھلاڑی ہیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ ان کی ٹیم پاکستانی خواتین کی پہلی فٹبال ٹیم ہے جس نے اے ایف ایل انٹرنیشنل کپ میں حصہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے

’سہولیات نہیں لیکن پاکستانی لڑکیوں میں فٹبال کا جنون ہے‘

پاکستانی ٹیم کی سٹرائیکر شاہ لائلہ احمد زئی انتقال کر گئیں

’میں انھیں گانا سکھاتی ہوں، وہ مجھے کرکٹ‘

رونالڈینو، گگز سمیت آٹھ بین الاقوامی فٹبالرز پاکستان میں

’فٹبال کی ترقی حکومتی مداخلت ختم کیے بغیر ممکن نہیں‘

تاہم صرف فٹبال کھیلنا ہی ان کا مقصد نہیں بلکہ کرشمہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان نوجوان لڑکیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں جنھیں ان کی طرح فٹبال کھیلنا پسند ہے۔

چترال ویمن سپورٹس کلب کا قیام

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرشمہ کا کہنا تھا کہ انھیں فٹبال کھیلنے کا شوق تھا مگر ان کے علاقے میں لڑکیوں کے اس کھیل میں حصہ لینے کو صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا لہٰذا وہ اپنے والد کے ساتھ ہی فٹبال کھیل کر شوق پورا کیا کرتی تھیں۔

پرائمری تعلیم کے بعد جب وہ اسلام آباد آئیں تو انھیں اپنی سکول ٹیم اور پھر کلب کی طرف سے فٹبال کھیلنے کا موقع ملا۔

اس کے بعد کرشمہ نے قومی کھیلوں اور انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے لگائے جانے والے کیمپوں میں شرکت کی اور وہاں سے منتخب ہو کر بین الاقوامی میچوں میں حصہ لیا۔

اپنے بل بوتے پر یہ مقام حاصل کرنے والی کرشمہ کو پھر اپنے آبائی علاقے میں رہ جانے والی ان جیسی لڑکیوں کے لیے کچھ کرنے کا خیال آیا اور انھوں نے واپس چترال کا رخ کیا۔

‘گذشتہ سال میں نے چترال کا پہلا ویمن سپورٹس کلب کھولا ہے۔ وہاں اس سے قبل کوئی تصور نہیں تھا کہ لڑکیاں کھیلیں گی۔ کلب کے لیے جگہ حاصل کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ جب میں لوگوں کو بتاتی تھی تو وہ مجھ پر ہنستے تھے۔’

کرشمہ نے بتایا کہ انھوں نے چترال میں لڑکیوں کے کلب کے لیے اپنے خاندان اور دوستوں کے ذریعے فنڈز جمع کیے اور ان سے کٹس اور کھیل کا سامان خریدا تاکہ جو لڑکیاں کھیلنا چاہیں، اخراجات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنی بیٹیوں کو مرضی سے خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں دیتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سازوسامان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ میدان حاصل کرنا تھا جو لوگ نہیں دے رہے تھے۔ جو دے رہے تھے وہ گاؤں یا آبادی کے آس پاس تھے جہاں لڑکیاں کُھل کر نہیں کھیل سکتی تھیں۔ تو میں نے سوچا کہ میں ان کو کہیں دور لے جاؤں جہاں یہ آرام سے کھیل سکیں۔’

اس لیے کرشمہ نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے تعاون سے آبادی سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ لی اور سپورٹس کلب قائم کیا اور ان کے ابتدائی کیمپ میں ہی 60 لڑکیوں نے رجسٹریشن کروائی۔

کرشمہ کے مطابق ’میدان تک پہنچنے کے لیے ان لڑکیوں کو مختلف دیہات سے چار گھنٹے تک پیدل سفر کرنا پڑتا تھا لیکن ان کا شوق انھیں روز وہاں لے آتا تھا۔‘

عوامی ردِ عمل اور مستقبل کے منصوبے

تاہم ان لڑکیوں کا شوق مقامی افراد کو کچھ زیادہ پسند نہیں آیا اور کرشمہ کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

‘اس کیمپ کے بعد مقامی افراد نے نہ صرف زبانی طور پر برا بھلا کہا بلکہ سوشل میڈیا پر دھمکیاں بھی دیں۔ پھر میں نے سوچا کہ ابھی انھیں یہ بات ہضم کرنے میں وقت لگے گا تو اِسے یہیں تک رکھتی ہوں۔‘

تاہم کرشمہ نے ان دھمکیوں سے ہمت نہیں ہاری اور وہ اگلے سیزن میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ دوبارہ کیمپ لگانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

‘اب ہمارے پاس مستقبل کے لیے مستقل چلانے والا منصوبہ ہے۔ میں اب سال میں دو بار وہاں کوچ لے کر جاؤں گی اور ہماری غیرموجودگی میں لڑکیاں خود ہی کھیلتی رہیں گی۔’

کرشمہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے قومی فٹبال ٹیم کی دوستوں کو بھی رضامند کر لیا ہے کہ وہ چترال جا کر لڑکیوں کو فٹبال کھیلنے کی تربیت دیں۔

‘ایک گول کیپر اور اس کے علاوہ دو لڑکیاں ایسی ہیں جن میں غیرمعمولی صلاحیت ہے اور انھوں نے خود سے چند تراکیب وضع کر لی ہیں جنھیں مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔’

پاکستان میں قومی سطح پر خواتین فٹبال کہاں کھڑی ہے؟

کرشمہ علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ کسی بھی کھیل پر حکومت توجہ نہیں دیتی۔

‘سنہ 2014 کے بعد سے پاکستان میں فٹبال کی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی ہے۔ نہ نیشنل گیمز ہوئے اور نہ ہی نیشنل کیمپ۔ اس کی ایک وجہ تو وہ پابندی تھی جو فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے پاکستان پر لگائی تھی۔’

تاہم کرشمہ سمجھتی ہیں کہ اگر خواتین کی فٹبال پر توجہ دی جائے تو چترال جیسے پسماندہ علاقے بھی اس معاملے میں بہت زرخیز ثابت ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp