جسٹس قاضی فائز عیسی اور عدلیہ کی متنازع تاریخ


ایک ایسا عدالتی نظام جو معاشرے کو مثالی انصاف دینے میں ناکام ہو جائے اور ایک ایسی عدلیہ جس کے ماتھے پر جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ثاقب نثار جیسے منصف آمریت کی راہ ہموار کرنے میں پیش پیش رہ کر داغ لگا چکے ہوں وہاں جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے منصف کی موجودگی عدالتی نظام اور عدلیہ کی بقا کے لئے آکسیجن کا کام انجام دیتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے بے باک اور نڈر فیصلوں کے باعث ان حلقوں کو کھٹکتے ہیں جنہوں نے دن رات ایک کر کے مصنوعی سیاسی عمل کو جنم دیا۔

قاضی فائز عیسی کا تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ ایک ایسا عدالتی فیصلہ ہے جس کی نظیر ہمیں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ جس انداز سے قاضی فائز عیسی نے اس مقدمے کو ماہرانہ قانونی اور آئینی انداز سے نبٹایا اور مقتدر حلقوں کو فیض آباد دھرنے کی پشت پناہی کا ذمہ دار اٹھایا اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی دھرتی ابھی نڈر اور سچ بولنے والے افراد کے معاملے میں بانجھ نہیں ہوئی ہے۔ خیر قاضی فائز عیسی اس فیصلے کے بعد سے کچھ حلقوں کو کھٹکنے لگ گئے کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اعلی عدالتوں میں کوئی ایسا منصف آئے جو کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آزادانہ اور منصفانہ قانونی فیصلے کرے۔

حال ہی میں تحریک انصاف کی حکومت نے ان کے فیض آباد دھرنے کے مقدمے میں دیے گئے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور ساتھ ہی کچھ ہوا کے رخ پر چلنے والے وکلا کی مدد سے پنجاب بار کونسل کا نام استعمال کر کے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس کے رد عمل میں کراچی سے اور ملک کے دیگر حصوں سے وکلا کے عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ نے قاضی فائز عیسی کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔

اس اثنا میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اعلی عدالت میں تقرری کے خلاف ایک درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی لیکن اس درخواست کو سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ قاضی فائز عیسی کی تعیناتی اور ترقی بالکل میرٹ پر ہوئی تھی۔ البتہ مقتدر قوتوں کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کو متنازعہ بنانے کی کاوشیں ابھی بھی جاری ہیں جو اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ اس نظام میں حق حرف کہنے اور لکھنے والوں کو ہر آن پل صراط سے گرنا پڑتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی چاہتے تو میاں ثاقب نثار کی مانند سر جھکا کر نادیدہ قوتوں سے ڈکٹیشن لیتے ہوئے مزے سے زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے لیکن اس کے برعکس بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اس غیور منصف نے قانون اور آئین کو مقدم جانتے ہوئے ہر عدالتی فیصلہ عین قانون کے مطابق اور میرٹ پر دیا۔ ایک ایسے دور میں جب زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد سر جھکا کر نادیدہ قوتوں کے احکامات کی بجاآوری کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، قاضی فائز عیسی جیسے افراد کا موجود ہونا ہی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

قاضی فائز عیسی پر اداروں کے خلاف تعصب کا پراپیگینڈہ تو پھیلایا جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ قاضی فائز عیسی کون ہیں اور کس قدر محنت سے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ سن 1959 میں پیدا ہونے والے قاضی فائز عیسی کے والد قاضی محمد عیسی آل انڈیا مسلم لیگ کے دیرینہ رکن تھے اور بلوچستان میں مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ ان کا قائد اعظم کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں برازیل میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا۔

قاضی فائز عیسی دوسری جانب مشرف دور میں پی سی او ججوں کے حلف اٹھانے کے کیس میں عدالتوں کی معاونت کر چکے ہیں اور انہوں نے پی سی او ججوں کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کراچی میں مشرف دور میں 12 مئی کو ہونے والے وکلا اور سیاسی جماعتوں کے ارکان کے قتل عام کے مقدمے میں بھی قاضی فائز عیسی نے عدالتوں کی معاونت کی اور بلوچستان ہائی کورٹ میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے ایسے حساس نوعیت کے مقدمات سنے جو کوئی بھی دوسرا منصف سننے سے کتراتا ہے یا چپ چاپ ان مقدمات کا یک طرفہ فیصلہ دباؤ میں آ کر دے دیتا ہے۔

ایک ایسے آزاد منش منصف کی اعلی عدالتوں میں موجودگی مقتدر حلقوں کو ناگوار گزرنا ہرگز بھی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہماری مقتدر قوتوں اور اس نظام کو دراصل ایسے افراد عہدوں پر دیکھنے کی عادت سی پڑ گئی ہے جو بلا چوں و چرا ہر دم دیکھے اور ان دیکھے حاکموں کا دم بھرنے کو عین عبادت گردانتے ہیں۔ ایسا نظام جہاں تابع داری اور اطاعت کو قابلیت اور دیانتداری پر فوقیت حاصل ہو وہاں جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے نایاب گوہروں کو ہرگز بھی خوش آمدید نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں مقتدر قوتوں کو عدالتوں میں ایسے منصف درکار ہیں جو اپنا اصل فرض چھوڑ کرکبھی سیاسی امور اور کبھی انتظامی امور میں مداخلت کریں اور کبھی عوام سے چندہ و خیرات حاصل کرنے نکل پڑیں۔ قاضی فائز عیسی کو چونکہ میڈیا پر آنے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے اس لئے ان کے خلاف ایک من گھڑت جھوٹا اور یک طرفہ بیانیہ قائم کرنا انتہائی آسان ہے اور یہی اس وقت ہو رہا ہے۔

جو حلقے یہ من گھڑت بیانیہ تیار کر رہے ہیں اور قاضی فائز عیسی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے ابھی تک یہ سبق نہیں سیکھا کہ آپ جتنا بھی زور اور قوت سچائی کو مسخ کرنے کے لئے استعمال کر لیں لیکن سچ ہر صورت اپنی خوشبو پھیلا کر رہتا ہے اور گلشن میں حبس موسم میں پھیلے جھوٹ اور منافقت کے تعفن کو اپنی خوشبو سے ختم کر دیتا ہے۔ قاضی فائز عیسی کا سپریم کورٹ کے منصف کی کرسی تک پہنچنے کا سفر کسی کی بخشیش یا مہربانی کا مرہون منت نہیں ہے اس لئے ان کی فائلیں تو نکلوا ئی نہیں جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی منُ گھڑت کرپشن یا آمدن سے زائد اثاثوں کا آزمودہ نسخہ آزما کر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جایا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے انہیں متنازعہ بنانے کے لئے اداروں کے خلاف تعصب اور اداروں کی کردار کشی کا ایک اور آزمودہ حربہ اپنایا ہے۔ اس حربے کے تحت قاضی فائز عیسی کے خلاف پھیلایا جانے والا پراپیگینڈہ مطالعہ پاکستان کی حد تک محدود افراد یا محترم عمران خان کے اندھا دھند تقلید کرنے والے فین کلب کو تو اپنا اسیر بنا سکتا ہے لیکنُ اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کر سکتا

۔ جب نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ وہ قوتیں جو دراصل اس وطن کے سیاہ و سفید کی مالک ہیں انہیں سپریم کورٹ کے ایک منصف سے بھی خطرہ محسوس ہونا شروع ہو جائے اور وہ انہیں سارا کھیل بگاڑتا دکھائی دینے لگے تو پھر یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ یہ بساط ان قوتوں کے اختیار سے باہر ہو چکی ہے جنہوں نے اسے طاقت کے دم پر سجایا تھا۔ رہی بات قاضی فائز عیسی کی تو ان کی کردار کشی کی مہم کا جواب غالباً ان کے قانونی فیصلے دیں گے اور ایک بہترین منصف ہوتا بھی وہی ہے جو خود نہیں بولتا بلکہ اس کے دیے گئے عدالتی فیصلے خود بولتے ہیں اور جھوٹ کو دفن کر دیتے ہیں۔

اور اگر انہیں کوئی بھی بہانہ بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ وکلا سول سوسائٹی اور اپوزیشن کی مشترکہ احتجاجی تحریک کی صورت میں نکل سکتا ہے جو ججوں کیُ بحالی کی گزشتہ تحریک کی مانند ”کنٹرولڈ“ نہیں ہو گی۔ اس وطن کو قاضی فائز عیسی جیسے منصفوں کی اشد ضرورت ہے جو متنازعہ عدالتی تحریک کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).