ہایئر ایجوکیشن اور ہماری سنجیدگی


تعلیم کی اہمیت سے بھلا کون انکار کر سکتاہے۔ جن قوموں نے تعلیم کو اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔ دنیا میں تاریخ رقم کرنے میں وہی سب سے آگے ہیں۔ پھر وہ کھیل کامیدان ہو، سائنس کی دنیا ہو، سوشل سائنسز کی بات ہو، سیاسی کھیل ہو یا پھر انسانی نفسیات پہ تحقیق و تشریح ہو، غرضیکہ ہر میدان عمل میں کارہائے نمایاں ہیں۔ آج زمین سے چاند، مریخ تک کا سفر اور بلیک ہولز کی تصاویر لینے تک کے مناظر میں تعلیم ہی کا کردار ہر سو دکھائی دیتا ہے۔

کسی وبا کا شکار ہو کے ایک ساتھ مرنے کی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ میڈیکل سائنس میں تعلیم کی بدولت عام بیماری سے لے کے پیچیدہ بیماریوں تک کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ اب اگر کسی کو کوئی فزیکل یا ذہنی ایمرجنسی ہو جائے تو ہسپتال پہنچنے پہ متاثرہ انسان اپنے بچنے اور صحت یاب ہونے کی امید من میں جگا لیتا ہے۔ گویا کہ چہار سو بہاریں علمی سطح بلند کرنے سے ہی واگزار ہوئیں ہیں۔ اگر آئن سٹائن کی تحقیق نہ ہوتی تو سٹیفن ہاکنگ بھی شاید بلیک ہولز کے بارے نہ سوچتا اور آج اس بلیک ہولز کو دیکھنے سے ہم قاصر رہتے۔

جہاں تعلیم کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے اور کائنات کو جاننے کے لئے اسی کو اپنایا جا رہا ہے۔ وہیں ہمارے ہاں تعلیمی معیار اس کے برعکس بہت ہی پسماندہ ہے۔ ایسا تعلیمی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا ہے، جو رٹے ہوئے طوطے پیدا کرنے پہ مجبور ہے۔ ایک ایسی کھیپ ہر سال تیار کی جاتی ہے۔ جو صرف نوکریوں کی بھاگ دوڑ میں لگی رہتی ہے۔ رزلٹ کو فی صد میں دیکھے تو اسی، نوے اور پچانوے فیصد دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں تعلیمی معیار پاس شدہ طالبعلم کا اس سے کہیں کم ظاہر ہو تا ہے۔ یہ مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں۔ اس پہ پالیسی سازوں کا کوئی دھیان نہیں ہے۔ ہر آنے والے دن پچھلے دنوں جیسے ہی رہتے ہیں۔ نہ ہی تعلیمی نصاب کو سوچا جاتا ہے، نہ ہی وقت کی رفتار کے مطابق تعلیمی تسلسل کو ماپا جاتا ہے۔

اس بات کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں، کہ کالج سطح کی تعلیم بہت اہمیت کی حا مل جانی جاتی ہے۔ کیونکہ اس لیول پہ آکے طالبعلم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیول پہ ریسرچ ورک بھی زیادہ ہونا چاھئے۔ اور اس پہ توجہ بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اس سطح پہ تعلیم کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہے ہیں۔ کیونکہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر سایہ اس سطح کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام آتا ہے۔

اس ادارے کو سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اگر ایک ادارے کے سربراہ یعنی سیکرٹری کو ایک لمبے عرصہ تک کام کرنے کا موقع اسی ادارے میں ہی ملے تب وہ اسے اچھے طریقہ سے چلا سکتا ہے، اس کی ہیئت کو سمجھ سکتا ہے۔ اور ایک سنجیدہ اور حالات کے مطابق پراثر پالیسی دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن بہت ہی شرمناک اور المناک صورت حال ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں گزشتہ دو سال میں بارہ سیکرٹری تبدیل کیے جا چکے ہیں۔

اس سے ملک میں تعلیمی انقلاب کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتاہے۔ اور یہ بھی جانا جا سکتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اور باقی ماندہ اتھارٹیز کالج سطح کی تعلیم، اس میں بہتری لانے اوراس کے مسائل حل کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اور کس حد تک تعلیمی بہتری اس سطح پہ آسکتی اس بات سے یکسر انجان ہے۔ دو سال میں بارہ سیکرٹریز کا مطلب ہے۔ دوماہ ہر سیکرٹری کی اوسط میعاد رہی ہے۔ دو ماہ میں تو سیکرٹری آفس کے کلریکل عملہ کی افسرز کو سمجھ نہیں آتی ہے۔ تو وہ تعلیمی مسائل کو کیسے سمجھ اور حل کر سکتے ہیں۔

اگر واقعی حکومتی عہدیدار اور پالیسی ساز ملک میں مثبت تعلیمی تبدیلی لانے میں سنجیدہ ہیں۔ تو اس بابت سوچنا ہوگا، کہ ایک ادارے کے سربراہ سیکرٹری کو کتنا وقت اس ادارے میں لگانا ہوگا۔ تا کہ اس میں کوئی پیداواری، مثبت اور سائنٹیفک تبدیلی لائی جا سکے۔ جو آگے چل کے ملک میں بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ باتوں اور وعدوں سے انقلاب نہیں آتے بلکہ صرف خواہشیں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ اور بے جا خواہشیں مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).