خان صاحب، آپ اب وزیر اعظم ہیں


ہر بار سوچتے ہیں سیاسی بات نہیں کریں گے۔ غیر سیاسی رہیں گے۔ ذرا پاپولر ہونے کی ٹھانیں گے۔ لیکن کچھ بات بن نہیں پاتی۔ شاید قسمت میں یہی لکھا ہے جس سے لڑنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ زندگی میں اور بہت جنگیں ہیں لڑنے کو۔ ہم وہی لڑیں گے جن میں جیتنے یا کم ہارے جانے کا احتمال ہو۔ لہذا قسمت کے خلاف جنگ کینسل!

ابھی لکھنے بیٹھے تو خیال آیا کہ اس موضوع پر تو پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن کیا کیجئے کہ نہ یہ مدعا نمٹنے کا نام لیتا ہے اور نہ ہی ہمارا اضطراب تھمنے کا۔ لکھنے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ لکھنے والا اپنے جذبات کو بالائے طاق رکھ کر لکھے اور یہ فیصلہ پڑھنے والے ہر چھوڑ دے کہ وہ کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔

چلئے تمہید کو طے کر کے الماری میں دھرتے ہیں اور اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ اپنے وزیر اعظم عالی مقام کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہیں کہ شاید ہمیں بھی کوئی رتبہ نہ سہی، عزت ہی مل جائے۔ جب خان صاحب کنٹینر پر چڑھے ہمیں سبز باغ دکھانے میں محو تھے تو ہمیں یہی گمان تھا کہ ان کے حکومت میں آتے ہی پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ بریڈ پٹ لاہور ایورنیو اسٹوڈیوز کے باہر شان کے سائیڈ ہیرو کے رول کے آڈیشن کے لئے کھڑے ہوں گے۔ بل گیٹس سے اور کچھ نہ بن پایا تو حفیظ سینٹر میں ایک دکان ہی کھول لیں گے۔ ونفی اوپرا کوشش کریں گی کہ طارق عزیز شو میں کام مل جائے۔ نوکریوں کی افراط ہو گی اور ہم سب ان غیر ملکیوں کے کفیل بن کر بستر توڑیں گے۔

سپنا اچھا تھا۔ جاگنے کا دل نہیں تھا۔ کہانی ساز نے اس فلم میں مزید جان ڈالنے کے لئے ٹینشن بھی متعارف کرائی۔ ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ ہم ہی وہ گدھے ہیں جن کی کڑاہی سب چٹخارے لے کر کھاتے ہیں۔ ہم نے جن لوگوں کو ووٹ دے کر حکومت دے رکھی ہے وہ تو ایک نمبر کے جاہل ہیں۔ بات کرنے کی تمیز نہیں۔ پرچی سے دیکھے بنا تقریر نہیں کر سکتے۔ دیکھنے میں بھی اچھے نہیں۔ ان کے ووٹر بھی عجیب گاؤدی لوگ ہیں۔ پٹواری ہیں۔ جیالے ہیں۔ اندھی تقلید کرتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں ہیں۔ حکومت کرپٹ ہے۔ خزانہ لوٹ کر کھا گئی۔

فلم کا یہ ہیرو بڑھکوں میں اپنی مثال آپ تھا۔

‘اوئے نواز شریف’

‘میں ان کی شلواریں گیلی کر دوں گا’

ایسے اکھڑ گبھرو سے کیوں نہ محبت ہوتی۔ کچھ آنے والے اچھے دنوں کا خمار تھا کچھ اس ہینڈسم چاکلیٹ اور مرونڈا ہیرو کا چارم۔

انسان کے بس میں تو کیا تھا۔ خدا اور اس کے فوجداروں نے اس ہیرو کو ہمارے سر پر یوں مسلط کیا کہ سر کا تاج لگے۔ جلد ہی یہ بھی سمجھ آ گئی کہ یہ تاج تو کانٹوں کا ہے۔ بھینسیں بیچی گئیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ گورنر ہاوس میں چھلکے پھینکنے کا فری ہینڈ دیا گیا۔مغلظات بکنا وزارت کا میرٹ ٹھہرا۔ معیشت کی وہ ٹانگیں توڑی گئیں کہ شاید ہی دوبارہ پیروں ہر کھڑی ہو پائے۔ ترقیاتی کاموں کے لئے بجٹ بنانے کی بجائے چندوں کا اعلان ہوا۔

البتہ فوٹو شوٹ اچھے ہیں۔ وزیر اعظم ہینڈسم ہیں۔ ورلڈ کپ جیت رکھا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پرچی استعمال نہیں کرتے۔

جناب وزیر اعظم، جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں؟ خیر آپ کے ہاتھ میں سوائے عقیق کی انگوٹھی کے ہے ہی کیا؟ آپ کے تو اپنے مقدر کا بھی کاتب کوئی اور ہے۔ کچھ دنوں سے آپ کافی انقلابی گفتگو کر رہے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں لیکن وہ کیا ہے کہ اب آپ وزیر اعظم ہیں اور اتنا انقلاب اچھا نہیں۔ کبھی جرمنی اور جاپان کا بارڈر ایک کر دیتے ہیں تو کبھی ایک اپوزیشن لیڈر کو عورت سے تشبیہہ دے کر خدا جانے عورتوں کی تضحیک کر رہے ہیں یا اس لیڈر کی۔ ویسے آپس کی بات کے تمسخر تو اپنا ہی اڑایا آپ نے۔ ہمیں لگا کہ شاید آپ عورتوں کے بھی وزیر اعظم ہے اور شاید ان کی عزت کا ناٹک ہی کر لیں۔

لیکن شاید آپ کی زبان پھسل جاتی ہے جب آپ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جرمنی اور جاپان والی بات سے آپ کی مراد کچھ اور تھی۔ کل کو بلاول والی بات سے بھی مراد کچھ اور نکلے گی۔ آپ کے حواری تو یہی فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ پر پریشر ہے جس میں قصور ان سب لوگوں کا ہے جو آپ پر تنقید کرتے ہیں۔

ایسے کیسے چلے گا خان صاحب؟ ہماری مانئے تو آپ بھی پرچی ساتھ رکھا کیجئے تاکہ دل بھی قابو میں رہے اور زبان بھی۔ ان کا پھسلنا آپ کے عہدے کے شایان شان نہیں۔

ایک مشورہ اور بھی ہے۔ یوں تو چھوٹا منہ بڑی بات لیکن یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر بن پائے تو کنٹینر سے نیچے اتر کر وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں تشریف لے آئیے۔ یہی آپ کا حقیقی مقام ہے۔ ہینڈسم تو آپ ہیں ہی۔ تھوڑی سی ہوش و خرد کی پاسبانی بھی سہی۔

اب آپ کی آڈیئنس بدل گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).