ایک مکمل نامکمل ناول – سندھی ناول موہن جودڑو کے اردو ترجمے پر تبصرہ


مجھے ہمیشہ اچھا لگتا تھا کہ دنیا بھر کے بڑے ناول، کہانیاں اردو میں ترجمہ ہوکر مجھے ملتی تھیں کہ میں بغیر کسی دوسری زبان کی دیوار پھلانگے دھم سے اس دنیا میں کود جاتی تھی، ان کرداروں کے ساتھ ان کے تہواروں میں شریک ہوتی، کبھی گرجا گھروں میں تو کبھی معبدوں میں، کبھی لاطینی امریکہ کی فضا میں سانس لیتی تو کبھی روس کی سخت سردی میں ان کرداروں کے ساتھ سماوار سے قہوہ پیتی اور باہر نکلتے ہوئے اپنے اور گھوڑے بان کے منہ سے نکلتی بھاپ والے منظرکا کراچی کی ہلکی پھلکی سردی میں لطف اٹھاتی۔

ناولوں اور ان سے جڑی تہذیبوں میں دلچسپی نے یہ کیسا کمال کیا کہ جب بھی کسی ناول یا کہانی کی تعریف سنی یا اس کو انگریزی میں پڑھا بس دل چاہا کہ اس کو اردو میں پڑھوں، جو انگریزی میں پڑھ لیے ان کا بھی ترجمہ ملنے پر پڑھا یہ اور بات کہ کبھی بہت خوشی اور کبھی افسوس کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کہانی بھی اپنی ہو اور گلیاں بھی لندن یا ماسکو کی نہیں اپنے موہن جودڑو کی ہوں تو ان تک پہنچ نہ سکنے، پڑھ نہ سکنے کی کم مائیگی کا شدید احساس ہوتا ہے۔

اور بس یا تو کوشش کی کہ اس کا ترجمہ مل جائے یا کوئی ایسا جو اس کا ترجمہ کرکے سناتا جائے اور میں آنکھ بند کرکے اس دنیا میں گھومتی رہوں، جو ایک ناممکن سی بات ہے۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر خود بھی ترجمے کی کوشش کرکے دیکھی مگر علی بابا کے موہن جودڑو جیسے شاہکار اور صدیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ایک مختصر مگر عمیق ناول کے لیے یہ ناممکن سی بات تھی۔ علی بابا کا انتقال ہوا تو یہ خواہش افسوس اور شرمندگی میں بدل گئی۔

گذشتہ ماہ معلوم ہوا کہ سندھی زبان کے معروف ناول ”موہن جو داڑو“ کا اردو ترجمہ چھپ گیا ہے۔ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں والی مثال کے مصداق میں نے فوری طور پر گزارشات بھیجنا شروع کردیں کہ کراچی سے مجھے وہ ناول دیا جائے۔ علی بابا نے سندھ کی ہزاروں سال کی تاریخ کو ایک سو پچیس صفحات میں لکھ کر جس دریا کو کوزے میں بند کیا تھا، اس کو اردو میں ترجمہ کرنے کا بیٹرا عزیر جیلانی نے اٹھایا، بلاشبہ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

میری معلومات کے مطابق علی بابا ہمیشہ اس ناول کا حصہ دوئم لکھنا چاہتے تھے، جس کی کچھ اقساط شائع بھی ہوئیں۔ علی بابا کے انتقال کے بعد حصہ دوئم کو شامل کرکے بھی ایک ایڈیشن شائع ہوا ہے، جو اس ترجمے میں شامل نہیں۔ مجموعی طور پر تاحال یہ ایک مکمل نامکمل ناول ہے۔ علی بابا خود تو یہ لکھ کے گئے کہ انہوں نے یہ ناول بچپن میں لکھنا شروع کیا اور کئی سالوں میں قسط وار لکھنے کے بعد بھی یہ مکمل ناول نہیں۔ وہ برملا اعتراف کرگئے کہ وہ جس رنگ و ڈھنگ سے ناول لکھنا چاہتے تھے، وہ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔

ایک اور بات جو علی بابا نے لکھی ہے وہ یہ کہ ایک بار ان کے پہلے ناول کے مسودے کا بڑا حصہ ان کی صندوق سے چوری بھی ہوا اور بعد ازاں انہوں نے دوسرا مسودہ ایک سندھی رسالے میں قسط وار لکھا۔ اس کے باوجود بلاشبہ اس کو سندھی زبان اور اب اردو میں ترجمہ ہونے کے بعد سندھی زبان سے باہر بھی ایک بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ اردو قارئین کے لئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ علی بابا سندھی ادب کے ہمہ جہت ادیب تھے۔ ملنگ طبیعت کے مالک علی بابا اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کا انتقال 8 اگست 2016کو کوٹری میں ہوا۔

ناول پڑھنا شروع کیا تو معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ٹائم مشین میں بیٹھ کر پانچ ہزار سال پہلے پہنچ گئے ہیں یا صرف صفحات پر نظریں پھسل رہی ہیں اور آپ بصارتی شعور کے ذریعے وہاں سندھوگھاٹ پر آتم تارا کے ہزاروں باراتیوں کے ساتھ دلہن شیوا کو کشتی سے اترتے دیکھ رہے ہیں۔ یا سونمیانی کے گھاٹ پر جنگی سورماؤں کو وداع کرنے اور انہیں دریا پار کرانے کی غرض جمع ہزاروں عورتوں کی آنکھوں میں ڈولتی ہوئی کشتیوں کے عکس کے ساتھ امیدویاس دیکھتے ہیں۔ میں نے خود کو دریا میں اپنے بڑوں اور محبوبوں کی واپسی کے ڈالے ہوئے قرعے دیکھتے ہوئے پایا تو خود سے کہا۔ نہیں یہ سندھو دریا کے لیے ہیں مجھے ان کو پڑھنا نہیں چاہیے۔

نہیں معلوم یہ پوری تاریخ ہے یا پورا فکشن، کیا معلوم مصنف نے کس وقت زمانوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کیا ہوا، اس کو ٹائم مشین کی کیا ضرورت بس تصور کی آنکھ سے وہ سب کچھ دیکھا جو وہاں برپا تھا، ایک طرف جنگ کا طبل بج رہا تھا تو دوسری طرف محبت کا اظہار اتنے دھیمے لہجے میں ہو رہا تھا کہ چاروں طرف ہزاروں ہاتھ باندھے کھڑے عوام بس چہرے کے رنگوں کے بدلنے سے اندازے لگا رہے تھے۔ جہاں دریائے سندھ اپنے پورے جوش سے ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور اردگرد کے علاقوں میں زندگی اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ افروز ہورہی تھی۔ رنگ بکھر رہے تھے اور لوگ زندگی سے بھرپور قہقے لگا رہے تھے۔

عزیر جیلانی نے اس عمیق اور پیچیدہ دیومالائی کہانی کا ترجمہ کیا اور خوب کیا ہے اور اردو زبان کو دراوڑی تہذیب بہر حال یہ آریاؤں اور دراوڑوں کے کشیدہ تعلقات، آریاؤں کی ریشہ دوانیوں اور سندھ کے پانیوں کی مہمان نوازی کے حوالے سے ایک خوبصورت دستاویز فراہم کی ہے کہ آریاوُں کی آمد سے پہلے یہاں شان دار تہذیب موجود تھی۔ جو وادی سندھ کی ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ یہ ناول اس خطے کے تقسیم در تقیسم سے پہلے، ایک اکائی والے خطے کے سماج کا آئینہ دار ہے۔ سماجی سطح پر مجھے دراوڑی عورت آریائی سماج کی عورت سے زیادہ مضبوط اور فیصلہ ساز نظر آتی ہے۔ جب کہ عوام کے پاس اپنی خوشی، غم وغصہ اور مایوسی کا اظہار کرنے کے لیے بھی مواقع ہیں۔ جو کسی بھی سماج کے مہذہب ہونے کے ساتھ ساتھ کھلے دل و دماغ کے ہونے کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

مترجم نے ایک ایک منظر کی تفصیلات کے لیے بجا طور پر ہندی کا استعمال کیا ہے کہ ریختہ اور ہندی ایک ہی زبان کے نام تھے۔ انگریزوں نے جو ہندوستان میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالسی اختیار کی اس پر ہندی کے استعمال کے لیے وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے کہ ناول لکھا سندھی میں گیا لیکن یہ اس زمانے کے بارے میں ہے جب یہ سرحدیں نہیں بنی تھیں، ریختہ اور ہندی ایک ہی زبان کے نام تھے۔

اپنی زمین، تاریخ اورفکشن سے دلچسپی رکھنے والوں میں عزیر جیلانی کی یہ کاوش قدر سے دیکھی جائے گی جنہوں نے علی بابا کے اس خوبصورت ناول کا کم و بیش تیس سال بعد اردو میں ترجمہ کر کے دلچسپی اور معلوما ت کا سامان مہیا کیا۔ ایک اور بات اس ناول کا کینوس اتنا بڑا ہے کہ اس پر فلم بننی چاہیے اور مجھے یقین ہے جو اس نام سے پہلے بن چکی ہیں، اس سے اچھی بنے گی۔
ناول کی قیمت 300 روپے ہے اور اس کو رنگ ادب پبلشر کراچی نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).