کیا عورت ہونا ذلیل اور کمتر ہونا ہے؟


پدرسری معاشرے میں عورت کے نام پر گالی، طعنہ دینا صرف مردانگی ہی نہیں گردانی جاتی بلکہ مخالفین کی تضحیک کے لئے سب سے مؤثر ہتھکنڈا سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں طے کردہ صنفی کردار بھی صرف اور صرف عورت کو ادنیٰ اور کم تر ظاہر کرتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کے لئےعورت کے نام پر تضحیک کرنا بہت ضروری ہے۔

عورت کے کاموں اور شخصیت کی تعریف کرنے کے بجائے، ان کاموں میں کیڑے نکالنا، اس کے ہر عمل پر اس کے کردار کی میزان لگا دینا، یہ وہ سب حربے ہیں جو ایک ذی روح انسان ہونے کے باوجود اس عورت پر برتے جاتے ہیں، جس کو ہم کبھی حوا، کبھی سیتا اور کبھی مریم کا درجہ دینے کا دعوی کرتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی اور سماجی کلچر میں گزشتہ کچھ عرصے سے عورتوں کے حوالے سے ایک بہت واہیات اور شرمناک رویہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ویسے تو اگر دیکھا جائے تو ایسے پدرسری معاشرے میں سیاست اور سماجی زندگی میں سرگرم عمل خواتین ہمیشہ سے مردوں اور بعض اوقات عورتوں کی جانب سے بھی تضحیک نیز طعن و تشنیع کا نشانہ ہوتی ہیں۔

پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ رعنا لیاقت علی پر بے جا تہمتیں لگانا، محترمہ بیگم نسیم ولی خان پر الزام تراشیاں۔۔۔۔ یہ سب اس معاشرے میں بڑے دھڑلے سے ہوتا رہا ہے، اور اس سماج کا سارا دانشور طبقہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے خاموش رہا۔

 اگر ہم جائزہ لیں تو تضحیک آمیز رویے اور بہیمانہ کردار کشی کا شکار سب سے زیادہ بھٹو خاندان کی محترم خواتین رہی ہیں۔

ستتر کی دہائی میں پی این اے کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک کے دوران جس خوفناک انداز میں ان خواتین کی تصاویر اور ان کی کردار کشی پر مشتمل جھوٹے مضامین لاہور ہی کے ایک معروف مرحوم دانشور سیاست دان کے زیر نگرانی اخبار میں چھپتا رہا اور اسی طرح پمفلٹ اور ہینڈبلز بھی مشتہر کئے جاتے رہے۔

ضیائی مارشل لا کے دوران ان سب بہیمانہ حرکتوں کا سلسلہ پی پی پی کی دیگر خواتین کی کردار کشی تک دراز کردیا گیا، اٹھاسی کی دہائی سے لیکر سن دو ہزار تک یہ سب حرکات کسی نہ کسی انداز میں جاری و ساری رہیں۔ اور ہمارے سب لکھاری، دانشور، سوائے معدودے چند کے، صم بکم خاموش رہے۔

مشرف کے مارشل لا کے بعد جب مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی 33% ہوئی، اور خواتین مختلف سطحوں پر منتخب ہوکر مقامی حکومتوں کے اداروں میں آئیں تو پاکستان کے اس پدر سری معاشرے میں جہاں ایک طویل مدت سے عورتوں کو ادنی شہری سمجھا جاتا رہا تھا، وہاں پاور اسٹرکچر میں موجود رجعت پرست قوتوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا، اور ان منتخب عورتوں نےجس مشاقی اور مہارت کے ساتھ اپنی قائدانہ صلاحتیں منوائیں۔ رجعت پرست قوتوں کے لئے یہ خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا ۔ اور اگر ہم سب کی یادداشت ساتھ دیتی ہے تو ان مقامی منتخب خواتین کے خلاف بھی منظم انداز میں مضحکہ خیز انداز میں مہم چلائی گئی تھی۔۔۔ جس میں خواتین کونسلروں پر بنائے گئے واہیات لطیفے، بےہودہ جملے اور باتیں تھیں۔ اور ماضی قریب میں اسی گندی مہم کا نشانہ شریف فیملی کی محترم خواتین بھی بنیں۔

اور یہ سب اس معاشرے میں ہوتا رہا ہے جہاں احترام نسوانیت کے بڑے بڑے بلندو بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، امہات المومنینؓ اور خانوادہ اہل بیت کی مخدرات عصمت کی پیروی اور احترام کا شب و روز ذکر ہوتا ہے۔

بات بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ اپنے مخالف کی بھی اگر تضحیک کرنی ہے، بھد اڑانی ہے، تو اس کی مثال عورت ہونے سے دی جاتی ہے، اسے زنانہ کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

اس  مذہب پرست سماج میں بھی قدرت کے فیصلوں اور کاموں کا مذاق اڑایا جاتا ہے

اور یہ سب کون کرتے ہیں ؟

نو مہینے تک عورت کی کوکھ میں پلنے والے ہم کرتے ہیں۔

عورت کے قدموں تلے جنت تلاش کرنے والے کرتے ہیں

عورت کو دیوی کہنے والے کرتے ہیں

عورت کے وجود کو کائنات کا حسن کہنے والے کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اپنی بات کہاں مکمل کروں۔ کیونکہ یہ سب کچھ میں کرتا ہوں۔ میرے ارد گرد میرے دوست کرتے ہیں، میرے محبوب رہنما کرتے ہیں، میرے محترم اساتذہ کرتے ہیں، میرے عالم دین کرتے ہیں، اور تو اور اب میرے بچے کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور شاید ہم اس لئے کرتے ہیں کہ کیونکہ ہم سب ـ”مردوئے” ہیں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).