محنت کا پھل ملتا ہے


\"Azeem-Ur-Rehman-Usmani\"

جب میں پرائمری اسکول میں تھا تو ہمارے گھر کام کیلئے ایک ماسی (ماں سی) آیا کرتی تھیں۔ ان کی جھونپڑی ہمارے گھر کے پیچھے دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے بیٹیاں جو مجھ جتنے یا مجھ سے چھوٹے تھے سارا دن یہاں سے وہاں آوارہ گھومتے رہتے۔ میری والدہ اکثر انہیں میرے ساتھ پڑھنے کے لئے کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ سے بیٹھا دیا کرتیں تاکہ وہ بھی کچھ پڑھ لیں۔ ان میں سے صرف ایک لڑکا جو عمر میں مجھ سے کچھ زیادہ تھا، پڑھنے میں دلچسپی دیکھانے لگا تو اس کا ایڈمیشن اسکول میں کروا دیا گیا۔ اس کی فیس کبھی ہمارے گھر سے جایا کرتی تو کبھی کسی اور گھر سے۔ کبھی کوئی یونیفارم دلا دیتا تو کبھی کوئی اپنی پرانی کورس کی کتابیں اسے دے دیتا۔ انتہائی ناموافق حالات کے باوجود وہ بچہ خوشی خوشی پڑھتا رہا اور میری والدہ اس کی والدہ کی ہمت بڑھاتی رہیں۔ یوں ہی پڑھتے پڑھتے ایک روز اس نے میٹرک پاس کرلیا۔ شاید میرے والد نے یا کسی اور صاحب نے اس کو کلرک کی نوکری دلا دی جہاں وہ اپنی محنت سے آگے بڑھتا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں ان کے حالات سدھرنے لگے تو اس نے اپنی والدہ کو گھر گھر جاکر جھاڑو پونچھے کی تکلیف سے نجات دلادی۔ اب اس کی نسل الحمدللہ اچھے اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

جب میں سیکنڈری اسکول میں پہنچا تو محلے کا ایک گھر معاشی تنگدستی کا شکار نظر آتا تھا۔ وہ لوگ گھر پر اچار اور چٹنی تیار کرکے اسے بیچا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اسکول جاتے تھے مگر ایک روز ان کے والد کی طبیعت بگڑی اور وہ انتقال کرگئے۔ بڑا بیٹا جو مجھ سے کافی چھوٹا تھا ، اسے اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ کبھی پرچون کی دکان اور کبھی میڈیکل اسٹور پر دن رات کام کرنے لگا۔ مجھے اس کے اسکول چھوڑ جانے کا بہت صدمہ تھا اور میں بہانے بہانے اس کے چہرے پر کرب ڈھونڈھتا رہتا تھا مگر وہ بناء شکایت خاموشی سے اسی خوش مزاجی سے کام کرتا رہا جو اسے پہلے حاصل تھی۔ صاف نظر آتا تھا کہ وہ اپنا کام دیگر ملازمین سے زیادہ تندہی سے کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو جوڑ لیا اور معلوم نہیں کتنا پڑھ پایا؟ جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ آج اسی کی محنت کے صدقے اللہ نے ان کے گھر کو خوشحال کردیا ہے۔ بہنوں کی شادی اور چھوٹے بھائی کی تعلیم کے پیچھے بھی ضرور اسی بھائی کی محنت پوشیدہ ہوگی۔

جب میں کالج پہنچا تو ایک دوست میرا جگری بن گیا۔ نوجوانی کی ہر تفریح ہم نے ساتھ ساتھ کی۔ اس کے گھریلو حالات معاشی اعتبار سے تنگ تھے۔ میرے اس دوست کا چہرہ ماشاللہ اتنا مسکراتا ہوا تھا کہ کبھی شک ہوتا کہ کہیں سوتے میں بھی تو مسکراتا نہیں رہتا؟ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ دوسری نمائندہ صفت اس میں خودداری کی تھی۔ یہ خودداری کا ایسا پہاڑ تھا کہ دو پیسے کی مدد لینا تو دور اس سے کوئی ایسی بات کرتے ہوئے بھی میری جان نکلتی تھی کہ لامحالہ کہیں برا ہی نہ مان جائے۔ ہم دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خوب دل لگتا تھا اور مستقبل میں کچھ بننے کے خواب ہم ساتھ ہی دیکھا کرتے تھے۔ پھر انٹر کے امتحانات ہوئے تو اس نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ اب وہ تعلیم جاری نہیں رکھ پائے گا۔ والد کے جانے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے۔ اسلئے وہ درزی بن رہا ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو مستقبل میں تعلیم حاصل کرے گا۔ میں دھک سے رہ گیا لیکن اس نے میری کوئی مدد نہ لی اور ایک جانب درزی بن کر کپڑے سیتا رہا تو دوسری جانب بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا رہا۔ وقت کا پہیہ تیز چلا تو رابطہ ٹوٹ گیا مگر دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہیں بھولے۔ کچھ سال پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس نے تعلیم کا سلسلہ اپنے دم پر پورا کرلیا تھا اور اب ایک معروف کمپنی میں مینجر ہے۔ ساتھ ہی کراچی میں ایک بزنس بھی کر رہا ہے اور ملایشیا میں ایک ریسٹورنٹ کا بھی مالک ہے۔ گاہے بگاہے وہاں جاتا رہتا ہے۔ بجا طور پر معاشی اعتبار سے آج وہ مجھ سے کہیں زیادہ کامیاب ہے۔

یونیورسٹی میں جب مجھے انجینئرنگ کے لئے داخلہ ملا تو ایک ایسا دوست بھی ملا جو ہم عمر ہونے کے باوجود ہم سے ایک سال جونیئر تھا۔ شاید مالی تنگدستی کی وجہ سے اس کا سال ضائع ہوچکا تھا۔ کمپیوٹر انجینئرنگ کیلئے کمپیوٹر کا گھر پر ہونا قریب قریب لازمی ہوتا ہے مگر ہمارے اس دوست کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ کمپیوٹر خرید سکتا لہٰذا ساری ساری رات اور دن ایک دوست کے گھر منڈلاتا رہتا۔ جہاں اگر کمپیوٹر فارغ مل جائے تو اسے استعمال کرپاتا۔ یہ غیر معمولی ذہانت کا حامل انسان تھا جو نہ صرف اپنے امتحانات میں نمائندہ نمبروں سے پاس ہوتا بلکہ مجھ سمیت اپنے دیگر سینئر دوستوں کو بھی ان کے امتحان کی تیاری کروادیتا۔ یونیورسٹی کے چار سالوں میں سے کچھ سال اسے اسکالر شپ مل گئی اور یوں شدید مشکلات سے لڑتا ہوا وہ اپنی انجینرنگ مکمل کرگیا۔ آج الحمدللہ وہ ایک عرب ملک میں نہایت اچھی نوکری پر فائز ہے اور مجھ جیسے اکثر دوستوں سے آگے ہے۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک اسے اور ان دیگر دوستوں کو جن کا ذکر اپر ہوا مزید سے مزید کامیابیاں عطا کریں آمین۔

آپ جانتے ہیں کہ ان سب دوستوں میں تنگی و تنگدستی کے علاوہ کیا قدر مشترک تھی؟ وہ قدر یہ تھی کہ یہ مشکلات کا سامنا مسکرا کر کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے نامناسب حالات پر واویلا نہیں کیا اور تکلیف دہ واقعات پر شکوہ زبان پر نہ لائے۔ انہوں نے حقیقت کو خوش دلی سے قبول کیا اور محنت سے اپنے راستے کو متعین کئے رکھا۔ وہ زبان حال سے دنیا کو اس شعر کی عملی تفسیر سمجھاتے رہے کہ

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے؟

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments