سری لنکا حملوں کا ’سرغنہ‘ ظہران ہاشم کون ہے؟


ہاشم

ایک دو بچوں کی ماں سری لنکا کے قصبے کاتن کوڈی میں حیران اور پریشان بیٹھی تھیں۔ محمد ہاشم مدنیا کو علم ہوا ہے کہ اس کا بھائی ظہران ہاشم مبینہ طور پر ان خود کش حملہ آوروں کا سرغنہ تھے جنھوں نے ایسٹر سنڈے کے موقعے پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں ساڑھے تین سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ان کے بھائی نے کیا وہ اس سے شدید خوف زدہ ہیں اور ڈرتی ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ پولیس نے ان سے تفتیش کی ہے لیکن ان پر کوئی شبہہ نہیں کیا جا رہا۔

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ہاشم جن پر خود کش حملہ آوروں کی سرپرستی کرنے کا الزام ہے زندہ ہیں کہ ہلاک ہو گئے ہیں۔

بحیرہ ہند کے ساحل پر واقع اس مسلم اکثریت والے قصبے کاتن کوڈی میں سفید سکارف پہنے وہ شدید گرمی اور حبس میں بیٹھی تھیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد سب لوگوں کی جو نظریں ان پر ہیں اس پر وہ خوش نہیں ہیں۔

وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور ظہران ہاشم جو کہ تقریباً چالیس برس کے ہیں سب سے بڑے ہیں۔ وہ اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ سنہ 2017 کے بعد ان کے بھائی سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اس وقت وہ دوسرے مسلمان فرقوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں کرنے کے الزام میں پولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے تھے۔

سری لنکا میں گزشتہ اتوار کو ہونے والے حملوں کے بعد ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں نظر آنے والے شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ظہران ہیں اور وہ لوگوں کو دولت اسلامیہ کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کی حمایت کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں نظر آنے والے آٹھ افراد میں صرف ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے اور ان کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے یہ حملے کیے ہیں۔

کاتن کونڈی

Huw Evans picture agency

سری لنکن پولیس کا کہنا ہے حملوں میں نو افراد ملوث تھے جن میں ایک عورت بھی شامل تھی اور یہ سب کے سب مقامی ہیں۔ ان کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق یہ تمام حملہ آور پڑھ لکھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے ایک برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلیم یافتہ تھا۔

دو حملہ آور مصالحوں کے ایک بڑے تاجر کے بیٹے تھے جس کو اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایک اور حملہ آور کی بیوی نے اپنے دو بچوں سمیت خود کو اس وقت دھماکے سے اڑا لیا جب پولیس ان کے گھر پہنچی۔ اس دھماکے میں پولیس کے مطابق کئی پولیس اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔

مدنیا نے کہا کہ انھیں اپنے بھائی کی سرگرمیوں کے بارے میں میڈیا سے علم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ ایسی حرکت کر سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جو کچھ ان کے بھائی نے کیا وہ اس کی سخت مذمت کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اب اپنے بھائی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ان کے بھائی جو ایک مقامی مبلغ تھے چند برس قبل اس وقت ذرائع ابلاغ کی نظروں میں آئے جب انھوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کئی ویڈیو لگانا شروع کیں۔ ان ویڈیوز کی وجہ سے مسلمانوں میں تشویش پیدا ہوئی جو بدھ اکثریتی سری لنکا میں اقلیت میں ہیں۔ مسلمانوں کے کئی سرکردہ افراد نے حکام سے اس بارے میں شکایت بھی کی لیکن ان کی شکایتوں پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ظہران کے روپوش ہونے کے بعد انھیں ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

کاتن کونڈی

کوئی بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ مشرقی سری لنکا کے ایک چھوٹے سے علاقے سے تعلق رکھنے والے یہ مبلغ اتنی سفاکانہ کارروائیاں منظم کر سکتا ہے جو پوری دنیا کے لیے خبر بن جائے گی۔ مدنیا نے بتایا کہ ’بچپن میں ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان کا ہر ایک ہمسائے سے رویہ بڑا دوستانہ تھا لیکن گزشتہ دو برس سے ان کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا‘۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ کیا ہاشم کے دولت اسلامیہ سے براہ راست رابطے تھے یا وہ ایک مقامی شدت پسند تھے جس نے اس گروہ سے وابستگی اختیار کر رکھی تھی جس نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

کاتن کوڈی کا قصبہ باٹیکالوا کے شہر کے قریب واقع ہے جہاں پر ایک گرجا گھر کو نشانہ بنایا گیا جس میں اٹھائیس افراد ہلاک ہوئے۔ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل آبادی والے اس شہر کا نام اب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی خبروں میں بھی نظر آتا ہے۔

میں نے جب ہاشم کے آبائی گھر کے بارے میں لوگوں سے پوچھنا شروع کیا تو لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اس کا پتا بتانے سے بھی گھبرا رہے تھے۔ لوگ ان کے بارے میں بات کرنے سے بھی ڈر رہے تھے۔ ان حملوں کے بعد سے مسلمان برداری سراسیمگی کا شکار ہے۔

مقامی مساجد کی فیڈریشن کے سربراہ محمد ابراہیم محمد زبیر نے بتایا کہ ان دھماکوں میں ہمارے علاقے کے کسی شخص کا ملوث ہونا ہمارے لیے بہت پریشانی کا باعث ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ شدت پسندوں کی حمایت نہیں کرتے اور بھائی چارے اور امن پر یقین رکھتے ہیں۔ جس دن میں اس قصبے میں پہنچا تو اس دن پورا علاقہ ان حملوں کی مذمت میں بند تھا، ہلاک ہونے والوں کے سوگ میں سڑکوں پر جگہ جگہ سفید اور سیاہ ربن لہرا رہے تھے۔

محمد زبیر نے کہا کہ وہ کئی برس قبل شدت پسند مبلغ سے ملے تھے اور ان کی سوچ اکثریتی فرقوں کے عقائد اور نظریات سے مختلف تھے۔ انھوں نے کہا کہ پوری برداری تشدد کے خلاف ہے اور نوجوان کو شدت پسندی کی طرف راغب ہونے سے روکنے کے لیے بھر پور اقدامات کر رہی ہے۔

ہاشم کی بہن کا کہنا تھا کہ شروع میں ان کے حلقہ بہت محدود تھا لیکن بہت جلد کچھ حلقوں کی طرف سے انھیں پزیرائی اور حمایت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ جیسے جیسے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ان کا حلقہ بڑھتا گیا۔ جب اکثریتی فرقے کے مذہبی اجتماعات میں انھیں ان کے سخت گیر خیالات کی وجہ سے بولنے نہیں دیا جاتا تھا تو انھوں نے نیشنل توحید جماعت کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت بنا لی۔

کاتن کونڈی

انھوں نے ساحل سمندر کے قریب ایک مسجد تعمیر کی اور وہاں خصوصی کلاسیں بھی شروع کر دیں۔ ایک متنازعہ نفرت انگیز تقریر جو سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئی اس کے سامنے آنے کے بعد انھیں نیشنل توحید جماعت سے بھی نکال دیا گیا۔ اس کے بعد وہ روپوش ہو گئے لیکن سوشل میڈیا پر نفرت انگیز ویڈیوز جاری کرتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا علیحدہ دھڑا بنا لیا۔ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا وہ بھی خود کش حملہ آوروں میں شامل تھے۔

لیکن ایک چیز واضح ہے جس طرح کہ حکومت نے بھی کہا ہے کہ جن لوگوں نے خود کش حملے کیے ہیں انھیں بیرونی امداد حاصل تھی۔

ہاشم کی بہن نے بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کے بوڑھے والدین حملوں سے چند دن پہلے کہیں چلے گئے اور انھیں ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے ان کے والدین کا رابطہ ان کے بھائی سے ہو۔ حکام ہاشم کے چھوٹے بھائی کی بھی تلاش کر رہے ہیں۔ سری لنکا کے اس چھوٹے سے علاقے میں مسلمانوں کو اب جوابی تشدد کا شدید خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp