پنجاب کی تباہی میں خالصہ فوج کا کردار


اٹھارویں ویں صدی کی دوسری دہائی میں مغل سلطنت رفتہ رفتہ زوال پزیر ہونے لگی۔ اس کم زوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہا راشٹر کے مرہٹے ہندوستان میں پھیلنے لگے اور پنجاب میں اٹک تک کے علاقے فتح کر لیے۔

سکھ سردار بھی مرہٹوں کے ساتھ مل گئے اور انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی عمل داریاں قائم کر لیں جنھیں ’مسل‘ کہا جاتا۔ انہی مسلوں میں سے ایک ’سکرچریا مسل‘ کا سردار، رنجیت سنگھ تھا۔

سکھ سامراج کا آغاز رنجیت سنگھ کی طرف سے لاہور کا قبضہ اس کے افغانی راجے، ’زمان شاہ درانی‘ (نادر شاہ درانی کے پوتے) سے لے کر ہوا، اور اسی دوران ہونے والی لڑائیوں کے تحت افغان، ’افغان۔ سکھ جنگیں‘ ہار کر پنجاب سے برخواست ہونے شروع ہو گئے۔ اور مختلف عمل داریوں میں بٹی ہوئی سکھ مسلیں اکٹھی ہونے لگیں۔ رنجیت سنگھ نے 12 اپریل 1801 کو پنجاب کا مہا راجا ہونے کا اعلان کیا۔ ایک مسل کا سردار ہونے سے پنجاب کا مہا راجا بننے تک، رنجیت سنگھ کو بہت تھوڑا وقت لگا۔ اس کے بعد وہ اپنی فوج کو جدید اصولوں، نئے ہتھیاروں اور توپ خانوں سے ماڈرن کرنے لگ پڑا۔

پنجاب فوج (1801۔ 49) سکھ سلطنت کی ملٹری فورس تھی۔ اس ’پنجاب فوج‘ کی کل گنتی ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب تھی۔ یہ اپنے وقت کی اک بڑھیا فوج تھی جس کے دیسی کمانڈروں کے ساتھ ساتھ یورپی کمانڈر بھی تھے جنھوں نے اس کی بنیادیں یورپی اسٹینڈرڈز پر رکھیں۔ اسی لیے انگریزوں کو پنجاب پر حملے کی جرات نہ ہوئی۔

لیکن جب مہا راجا رنجیت سنگھ کے بعد سکھ سلطنت اندرونی سازشوں کا شکار ہوئی تو پھر پنجاب فوج بھی اِن سازشوں سے نہ بچ سکی۔ اور اس طرح برطانوی راج نے پہلی اور دوسری اینگلو۔ سکھ جنگ میں سکھ راج کو ہرا کر 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کر لیا۔

مہا راجا رنجیت سنگھ نے اپنی قابلیت کو حکمرانی کے لیے قوانین بنانے، تجارت بڑھانے اور کاری گری کو ترقی دینے سے زیادہ، خالصہ فوج کو ایک نا قابل شکست قوت بنانے میں خرچ کی۔ ایسی فوج جو کبھی کسی خود مختار ہندوستانی حکمران کے پاس نہ رہی ہو۔ اس کام میں مہا راجا کو کامیابی ملی اور تھوڑے ہی عرصے میں خود کو ایک ایسی طاقتور فوج کا مالک پایا، جیسی کبھی کسی مشرقی حاکم کے قبضے میں نہ تھی اور وقت آنے پر انگریزوں سے ٹکرا کر وہ ہندوستان کا بادشاہ بننے کی خواہش کرنے لگا۔ جب یہ طاقت ور فوج مہاراجا رنجیت سنگھ کے مضبوط ہاتھوں سے نکلی تو آہستہ آہستہ خود مختار ہوتی چلی گئی۔

مذہبی اصولوں کی روشنی میں قائم ”پانچ پیاروں“ کا سلسلہ جو فوج میں چلا آتا تھا، وہ دھیرے دھیرے ملکی کاموں میں حصہ لینے لگ پڑا اور ’پنچایتوں‘ کا روپ دھار بیٹھا۔ پھر فوج میں دو قسم کے افسر بن گئے۔ ایک وہ جن کا تقرر بادشاہ کی طرف سے ہوتا اور دوسرے جنھیں فوج خود چنتی اور یہ افسر ’فوجی پنچ‘ کہلاتے۔ شروع شروع میں سرکاری افسروں کے زیر نگرانی کام ہوتا رہا، لیکن جب بادشاہ اور وزیر ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونے لگے (جس کا ذکر اسی آگے آ رہا ہے) تو ’فوجی پنچ‘ زور پکڑنے لگے۔

مہا راجا رنجیت سنگھ نے 20 جون 1939 کو اپنے بڑے صاحب زادے کھڑک سنگھ کو راج تلک لگا کر اپنا جاں نشین (مہا راجا) بنایا اور دھیان سنگھ ڈوگرا کو (جو کئی سالوں سے وزیر چلا آ رہا تھا) اس کا وزیر بنایا۔ مہا راجا رنجیت سنگھ کی وفات 27 جون 1839 کو ہوئی۔

دھیان سنگھ اور اس کے بھائی گلاب سنگھ ڈوگرا دولت اور طاقت اکٹھی کر کے خود مختار حکمران بننا چاہتے تھے۔ گلاب سنگھ جموں و کشمیر اور شمالی علاقوں کا راجا، جب کہ دھیان سنگھ لاہور کا بادشاہ بننے کی آس رکھنے لگا۔ وزیر دھیان سنگھ مہا راجا رنجیت سنگھ کو دیے گئے اپنے وچن سے پھرنے لگا۔ جلد ہی کھڑک سنگھ اور ڈوگروں میں ان بن رہنے لگی۔ مہا راجا کے حکم کے الٹ وزیر دھیان سنگھ کی من مرضیاں بڑھنے لگیں۔ مہا راجا کھڑک سنگھ نے ڈوگروں کی طاقت کم کرنے کے لیے چیت سنگھ (اپنے سالے) کو اپنا ’مشیر‘ مقرر کیا۔

دھیان سنگھ نے فوج میں یہ بات مشہور کی کہ چیت سنگھ انگریزوں کا ساتھی ہے اور جلد ہی پنجاب پر انگریزی سرکار قبضہ کر لے گی۔ خالصہ فوج کو ہٹا کر گورا فوج رکھ لی جائے گی۔ اور ساتھ ہی یہ تجویز رکھی کہ راج کھڑک سنگھ کے بیٹے کنور نونہال سنگھ (رنجیت سنگھ کے پوتے) کے حوالے کر دیا جائے۔ خالصہ فوج اس بات پر دھیان سنگھ کی حامی ہو گئی۔ چنانچہ نونہال سنگھ کو، جو کہ اس وقت پشاور کا گورنر تھا، گلاب سنگھ ڈوگرا پشاور سے لاہور لایا۔

ایک خفیہ میٹنگ میں ہونے والے مشورے پر عمل کرتے ہوئے، ’مشیر‘ چیت سنگھ کو قتل جب کہ مہا راجا کھڑک سنگھ کو نظر بند کر دیا گیا۔ اس قید کے دوران دھیان سنگھ کی نگرانی میں کھانے میں تھوڑا تھوڑا زہر (mercury) ملا کر دیا جانے لگا۔ جس کہ وجہ سے کھڑک سنگھ دھیرے دھیرے بیمار ہوتا گیا۔

راج 8 اکتوبر 1839 کو نونہال سنگھ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ خود ایک سپاہی تھا۔ اس کی زندگی بچپن ہی سے فوج کے درمیان گزری تھی۔ وہ فوج کا من پسند آدمی تھا۔ ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا اور ذہین نوجوان تھا۔ مہا راجا رنجیت سنگھ کو اُس پر مان تھا کہ نونہال سنگھ سکھ لاہور کے تخت کو سنبھالنے والا ایک لائق جاں نشین ثابت ہو گا۔ نونہال سنگھ نے جلد ہی بھانپ لیا کہ ڈوگرا طاقت سلطنتِ پنجاب کے لیے نقصان دہ ہے۔ سب سے پہلے اس نے فوجی پنچوں اور سرداروں میں اپنے رسوخ بڑھائے۔ فوج کے قواعد وہ خود ملاحظہ کرتا۔ تمام اہم مقدمے خود نمٹاتا۔ اس نے خاص آدمیوں پر مشتمل ایک ’کونسل‘ تشکیل دی۔ اس کونسل میں ’سردار لہنا سنگھ مجیٹھیا، اجیت سنگھ سندھاوالیا، بھائی رام سنگھ، راجا دھیان سنگھ، جمع دار خوش حال سنگھ اور ’فقیر عزیز الدین‘ شامل تھے۔ ریاست کا نظم اس کونسل کی مشورت سے چلنے لگا۔ یوں وزیر کی طاقت گھٹنے لگی۔ راجا دھیان سنگھ نے تاڑ لیا کہ اس نوجوان کے سامنے اب اس کی دال گلنے والی نہیں۔

ادھر گلاب سنگھ ڈوگرا جموں کا خود مختار راجا بنا بیٹھا تھا۔ وہاں نونہال سنگھ نے فوج بھیج کر خراج وصول کیا۔ اور ڈوگروں کو قابو میں رکھنے کے لیے ارد گرد کے علاقوں میں فوج کو اکٹھا کر دیا۔ جس کا افسر ایک ڈوگرا مخالف جرنیل (Ventura) کو مقرر کیا۔ ڈوگروں نے یہ افواہ پھیلائی کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے کابل کے بادشاہ شاہ شجاح کے خلاف، نونہال سنگھ پٹھانوں کو کھڑا کر رہا ہے اور دوست محمد خان کو خود خط لکھ کر مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سازش کے سلسلے میں چند فرضی خطوط بھی پھیلائے گئے۔ مگر مہا راجا نونہال سنگھ نے اپنی قابلیت کے ساتھ اس سازش کو نا کام بنا دیا۔ وہ ابھی اس قضیے سے فارغ ہی ہوا تھا کہ 5 نومبر 1840 کو کھڑک سنگھ کی موت ہو گئی۔

ڈوگروں نے نونہال سنگھ کو رستے سے ہٹانے کے لیے دوسری سازش رچی۔ 5 نومبر 1840 کو جب نونہال سنگھ اپنے باپ مہا راجا کھڑک سنگھ کا سنسکار کر کے واپسی پر حضوری باغ، روشنائی دروازے سے گزرنے لگا تو اس پر دروازے کا چَھجا گر پڑا (بارود پھٹنے کی وجہ سے)۔ سر پر ہلکی سی چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گیا۔ ڈوگرا وزیر دھیان سنگھ اسے پالکی میں ڈال کر اپنی نگرانی میں قلعے کے اندر لے گیا۔ ایک مخصوص کمرے میں لے جا کر، دھیان سنگھ اور اس کے آدمیوں نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ کسی اور کو اندر آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ دو دن بعد دروازہ کھلا۔ دھیان سنگھ نے نونہال سنگھ کی موت کا اعلان کیا۔ نونہال کا سر بری طرح کچلا ہوا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔

اس کے بعد راج تقریبا دو ماہ تک (6 نومبر 1840 سے 18 جنوری 1841) نونہال سنگھ کی ماں چَند کور کے ہاتھ میں رہا۔ سندھاوالیے مہا رانی کے طرف دار ہو گئے۔

ادھر تخت کے دعوے کے لیے دھیان سنگھ نے شیر سنگھ لاہور بلایا۔ وزیر دھیان سنگھ اور انگریزی سفیر ’مسٹر کلارک‘ نے شیر سنگھ کو نونہال سنگھ کا وارث مان لیا۔ لیکن سندھا والیوں کا دھڑا اتنا طاقت ور ہو چکا تھا کہ شیر سنگھ تخت پر قبضہ نہ کر سکا۔ سندھا والیوں کی طاقت دیکھ کر گلاب سنگھ بھی اُن کے ساتھ مل گیا۔ یہ ڈوگروں کی چال تھی۔ ان میں یہ طے ہوا تھا کہ دھیان سنگھ اور ہیرا سنگھ شیر سنگھ کی طرف، جب کہ گلاب سنگھ اور سچیت سنگھ چند کور کی طرف داری کریں گے۔ تا کہ کوئی دھڑا بھی ہارے گا تو جیت صرف ڈوگروں کی ہی ہو گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2