وزیر اعظم، پروپیگنڈا، اور عوام 


ہٹلر نے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کیا گویا قوم کا مسیحا ہے۔ اس کے پروپیگنڈے کے ذرائع بالکل نئے تھے۔ اس نے اپنی کتاب تزک ہٹلری (Mein Kampf) میں پروپیگنڈا کے طریقوں پہ بہت کچھ لکھا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کھ کتاب کے وہ حصے جو پروپیگنڈا تکنیک کے متعلق ہیں نہایت معنی خیز اور اہم ہیں۔ اس نے کہا

”عوام کو مسحور کرنے کے لئے کوئی خاص موضوع نہ دو بلکہ ایسا معاملہ پیش کرو جو صرف جذبات سے تعلق رکھتا ہو جو صرف بار بار کہے جانے کی وجہ سے قابل یقین ہو جائے“
اس نے کہا دشمن کے ساتھ ہمیشہ مخاصمت کا رویہ اختیار کرو کبھی صلح کی کمزوری نہ دکھاؤ۔ دشمن کے خلاف اگر جھوٹا الزام لگاؤ تو بڑا جھوٹ بولو اور اس کا بار بار اعادہ کرتے رہو۔

اور سب سے اہم چیز جو ہٹلر نے کہی کھ یہ یاد رکھو کھ پروپیگنڈا کا ٹارگٹ کبھی بھی اعلی تعلیم یافتہ طبقہ نہیں ہوتا بلکہ عام لوگ اور عوام ہیں۔ مواد اس طرح تیار کرو کھ عوام کے نچلے طبقے کو اچھا لگے۔ عوام کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلد بھول جاتے ہیں اور جو شخص انھیں بار بار کوئی بات یاد دلاے گا وہ ہی کامیاب ہو گا۔

ہٹلر کی پروپیگنڈا تکنیک پڑھ کے اگر کئی پاکستانی سیاسی شخصیات آپ کے ذہن میں ابھر ی ہوں گی۔

ماس میڈیا کے سٹوڈنٹس کو ابتدائی کورسز میں ہی پروپیگنڈا کے سات طریقے پڑھائے جاتے ہیں۔ جن میں ایک ”name calling“ طریقہ کہلاتا ہے جس میں کسی بھی شخص یا آئیڈیا کے ساتھ کوئی منفی علامت جوڑ دی جاتی ہے اور اس جملے یا علامت کا مقصد اس شخص یا آئیڈیا کو غیر مقبول کرنا ہوتا ہے تا کھ عوام رد کر دیں۔ جیسے تحریک انصاف بلاول بھٹو کے لئے ”صاحبہ“ اور ”ٹیکنیکل فالٹ“ وغیرہ کے الفاظ استعمال کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ وزیر اعظم کے لئے ”پی ایم سلیکٹ“، ”جعلی خان“ اور ”نکما“ کے الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے لئے ”چور ڈاکو“ اور ”پرچی والا“ مستعمل رہے۔ اسی طرح ”طالبان خان“ اور ”خلائی مخلوق“ بھی زبان زد عام رہے۔

ہر سیاسی جماعت اور گروپ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے ایسے حربے آزماتا ہے۔ کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ کم کامیاب۔

اج کل صورت حال یہ ہے کھ ایسی کسی بھی تکنیک کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ حکمران اور سیاسی جماعت کو ہوتا ہے۔ عمران خان کوئی بھی ایسا شوشہ چھوڑ کر سب کو مصروف کر دیتے ہیں۔ اور اصل موضوعات اور مسائل سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لکیر کا فقیر نیوز میڈیا بھی کسی ایک لفظ کو لے کر اس کے اخلاقی اور غیر اخلاقی پہلووں پر بحث کرتا رہتا ہے۔ متاثرہ سیاسی فریق یا تو اپنا دفاع کر رہا ہوتے ہیں یا ویسے ہی القابات سے جوابی وار کر رہے ہوتے ہیں۔

اسکا مطلب ہے عمران خان ایک کامیاب پروپیگنڈاسٹ ہیں۔ ان کا بولا ہوا ایک لفظ بھی کئی کئی دن کی ڈیبیٹ کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میڈیا اور سنجیدہ حلقے بھی ایسی بحث کا حصہ نظر آتے ہیں۔ جب کھ ملکی مسائل سکرین کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی، نا خواندگی، کرپشن، روٹی کپڑا مکان، صحت، زراعت، خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے موضوعات اب خال خال ہی قومی بیانیے کا حصہ نظر آتے ہیں۔ اجتماعی دانش تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ جگت بازی اور شغل کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل اور مین سٹریم میڈیا اکھاڑے ہیں۔ جس کی سوشل میڈیا ٹیم تگڑی ہے اس کا پروپیگنڈا بھی کامیاب ہے۔ افسوسناک صورت حال ہے۔

کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ بے رحم ہوتی ہے۔ طاقت کی نفسیات ہے کھ وہ جبر کا اظھار کرتی ہے ورنہ اہمیت کھو دیتی ہے۔ حکمران طبقہ صدیوں سے اپنی روش پہ مسلسل قائم ہے۔ لیکن میڈیا، دانشور، نظریہ ساز اور سول سوسائٹی تو بیداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ہوا کے رخ اڑنے والے افکار اور تجزیے ہوا کے ساتھ ہی اڑ جاتے ہیں۔ پھل خریدتے ریڑھی والے سے ایک ایک دانہ پہ جھگڑنے والی قوم ہر طرح کے میڈیا کونٹینٹ اور سیاسی ٹرولنگ کا با آسانی شکار ہو جاتی ہے۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو سب مذاق بن کے رہ جاے گا۔ ابلاغ اور ابلاغ عام کے ذرایع کا مثبت استعمال ہی اجتماعی دانش کی سمت درست کر سکتا ہے۔ ذہن سازوں کو چاہیے کہ ایسی خرابیوں کا مثبت اور فوری حل تلاش کریں۔ ورنہ غیر سنجیدگی سب کو بھگتنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).