سری لنکا میں حملے: ’حملہ آوروں کا سرغنہ ظہران ہاشم ہلاک ہو چکا ہے‘


ظہران ہاشم

ظہران ہاشم نے سیاحتی ہوٹل پر ہونے والے حملے کو لیڈ کیا تھا

سری لنکا کے صدر مائتھریپالا سریسینا کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسٹر سنڈے پر ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث شدت پسندون کے مبینہ سرغنہ ظہران ہاشم ان ہی دھماکوں میں ہلاک ہو گیا تھا۔

سری لنکن صدر کے مطابق بشدت پسند مبلغ اور دھماکوں کے مبینہ سرغنہ ظہران ہاشم کولمبو میں شنگریلا ہوٹل پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاشم نے سیاحتی ہوٹل پر ہونے والے حملے کو لیڈ کیا تھا اور اس میں ان کا ساتھ الہام نامی ایک خودکش حملہ آور نے دیا تھا۔

کولمبو میں اتوار کو چرچوں اور ہوٹلوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 250 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مائتھریپالا سریسینا کا مزید کہنا تھا کہ سری لنکا کے خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے 130 کے قریب مشتبہ افراد سری لنکا میں موجود ہیں جن میں سے 70 ابھی تک مفرور ہیں اور ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فورینزک ماہرین سری لنکا کی مدد کے لیے تیار

’حملوں کے سرغنہ‘ کی بہن کی جانب سے حملوں کی مذمت

نیشنل توحید جماعت پر حملوں کا الزام اور کئی سوالات

سری لنکا: حملوں کے بارے میں تنبیہ کو نظرانداز کرنے کا اعتراف

سری لنکن صدر نے ہاشم کا شنگریلا ہوٹل میں ہونے والے حملے میں کردار واضح نہیں کیا۔ سری لنکن حکام نے مقامی شدت پسند گروپ نیشنل توحید جماعت کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

ظہران ہاشم کون تھے؟

ظہران ہاشم کو مقامی طور پر پہچان چند برس قبل ملی جب ان کا نام اس گروہ سے جوڑا گیا جس نے بدھا کے مجسموں کا چہرہ مسخ کیا تھا۔ اس کے بعد ان کی یو ٹیوب پر پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔ ہاشمی یو ٹیوب پر ایسا مواد شئیر کرتے تھے جس میں غیر مسلموں پر تشدد کی ترغیب دی جاتی تھی۔

سنڈے ایسٹر کے حملوں کے چند روز بعد وہ سات دیگر افراد کے ساتھ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھے جا سکتے تھے جس میں انھوں نے دولت اسلامیہ سے اپنی وفاداری کا عہد کیا تھا۔

سری لنکا

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ہاشم دولتِ اسلامیہ کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھے یا انھوں نے صرف اس گروپ سے وفاداری کا عہد کیا تھا۔ دولت اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ہاشم کا تعلق سری لنکا کے ساحلی شہر کٹانکوڈے سے تھا۔ اس ہفتے کے آغاز میں ان کی بہن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے بھائی نے جو کیا ہے اس سے وہ دہشت زدہ ہو گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگرچہ وہ میرے بھائی ہیں مگر میں اس کو قبول نہیں کر سکتی۔ مجھے اب ان کی کوئی پرواہ نہیں۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ہاشم ان سے دو برس قبل تک رابطے میں تھا مگر اس کے بعد وہ منظر سے غائب ہو گیا۔‘

تازہ ترین پیش رفت

صدر مائتھریپالا سریسینا نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ پولیس دولت اسلامیہ کے مبینہ شدت پسندوں کی تلاش میں ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ بچ جانے والے مبینہ شدت پسند گرفتار ہیں یا ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔

صدر کا مزید کہنا تھا کہ سری لنکن پولیس کے سربراہ پوجیتھ جایاسندرا دھماکوں کے بعد مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کے استعفی دینے کے بعد دفاع کی وزارت کے اعلیٰ عہدیدار ہیماسری فرنینڈو نے بھی اپنے عہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

سری لنکن حکام نے جمعرات کے روز دھماکوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی نئی تعداد جاری کی تھی جس میں پہلے بتائی جانے والی ہلاکتوں کی تعداد 353 کو کم کر کے 253 بیان کیا گیا ہے۔

سری لنکا

ان حملوں نے ملک کے خفیہ اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا تھا کیوں کہ سرکاری اداروں بشمول پولیس کو ان ممکنہ حلموں کی وارننگ پہلے ہی مل چکی تھی۔

سری لنکا کے کیتھولک چرچ نے ملک کے تمام چرچوں میں عبادت کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

نیگوبو شہر میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے احمدی مسلمانوں، مسیحیوں اور افغانستان کے شہریوں کو ان کے مالک مکان نے گھروں سے زبردستی نکال دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو انتقامی حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سری لنکن حکومت نے کہا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی تشویش کے سدِباب کے لیے وہ دیگر اقدامات کے ساتھ سکولوں میں سرچ کریں گے۔

پیر کے روز لگائی گئی ایمرجنسی جاری ہے اور پولیس کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر بھی کسی کو گرفتار یا تفتیش کر سکتی ہے۔

حملہ آور کون تھے؟

ان حملوں کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ نو افراد نے کیے تھے۔ دو حملہ آور سری لنکا میں مسالوں کے کاروبار سے منسلک محمد یوسف ابراہیم کے بیٹے بتائے جاتے ہیں۔ محمد یوسف سری لنکا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ حملوں کے بعد ان کو حراست میں لے کر تفشیش کی گئی تھی۔

سری لنکا

سری لنکن صدر کے مطابق شنگریلا ہوٹل میں حملہ کرنے والے بمباروں میں ہاشم کے علاوہ محمد یوسف کا ایک بیٹا بھی شامل تھا۔ محمد یوسف کے دوسرے بیٹے نے سینامون گرینڈ ہوٹل پر حملہ کیا تھا جو شنگریلا سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔

اور جب پولیس نے محمد یوسف کے بیٹے کے گھر پر چھاپہ مارا تو ان کی بیوی نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔ تین پولیس افسران اور ان کے بچے اس میں ہلاک ہوئے تھے۔

سری لنکن حکومت کے مطابق حملہ آوور ‘تعلیم یافتہ’ اور ‘متوسط اور امیر’ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وائٹ ہال کے ایک سئنیر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک حملہ آوور نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ عبدل لطیف جمیل محمد نے سنہ 2006-07 کے دوران کنگسٹن یونیورسٹی سے ایرو سپیس انجئینرنگ کی تعلیم شروع کی تاہم انھوں نے اپنی ڈگری مکمل نہیں کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp