صومالیہ کی واحد مفت ایمبولینس سروس کے بانی پاکستانی طالبعلم نکلے
بم دھماکوں کا اکثر نشانہ بننے والے صومالیہ کے دارا لحکومت میں صرف ایک مفت ایمبولینس سروس دستیاب ہے جس کی بنیاد آج سے 13 سال پہلے عبدالقادر عبدالرحمان ایڈن نے رکھی۔
پاکستان سے دندان سازی پڑھ کر موگادیشو واپس آنے کے بعد شہر کی مصروف گلیوں میں ایمبولینسوں کی قلت اور بیمار لوگوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ہیلتھ گاڑی کے استعمال نے ڈاکٹر ایڈن کو پریشان کر دیا۔ پہلے سے چند ایمبولینس موجود ضرور تھیں مگر وہ نجی ہسپتالوں کی ملکیت تھیں اور ایمبولینس کی سہولت استعمال کرنے کے بعد مریضوں کو رقم ادا کرنا پڑتی تھی۔
پاکستان سے واپسی کے کچھ عرصے بعد ہی ڈاکٹر ایڈن نے ایمبولینس سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ‘میں نے ایک مِنی بس خریدی، اس کو ایمبولینس میں تبدیل کیا اور وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے سروس تک رسائی ممکن بنائی۔’
انھوں نے منی بس ایمبولینس کو فعال کیا اور زخمی لوگوں اور حاملہ خواتین کو ہسپتال پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔
ایمبولینس سروس کی مانگ دیکھ کر انھیں سروس کو پھیلانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ممکنہ عطیہ دینے والوں کی تلاش میں انھوں نے شہر کے بازاروں اور نکڑ پر بنی دکانوں کا رخ کیا۔ وہ کہتے ہیں ‘ایک اور منی بس خریدنے کے لیے میں مقامی تاجروں کو حصہ ڈالنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔’
یہ بھی پڑھیے!
جان بچانے کے لیے ‘چوہے بھی کھائے’
اس وقت ڈاکٹر ایڈن شہر میں واقع چند یونیورسٹیوں میں جُزوقتی تدریسی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
انھوں نے اپنے طالبعلموں سے پوچھا کہ کیا وہ زندگی بچانا چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بچانے کے لیے ہر ماہ ایک ڈالر عطیہ کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں بھی گئے انھوں نے آمن ایمبولینس کو چلانے کے لیے لوگوں سے ہر ماہ ایک ڈالر عطیہ کرنے کو کہا۔
سرکاری فنڈنگ کے بغیر
صومالی زبان میں آمن کا مطلب ‘اعتبار’ ہے اور شہر کے زیادہ تر رہائشیوں کا خیال ہے کہ سیاستدانوں سے مایوس معاشرے میں سروس اپنے نام پر پوری اتری ہے۔
عطیات پر چلنے والی آمن ایمبولینس کے عملے کی تعداد 35 ہے۔ ڈاکٹر ایڈن کے مطابق عملے میں سے کئی لوگ رضاکار اور طالبعلم ہیں۔ رضاکاروں کو تنخواہ نہیں دی جاتی مگر ان کے چند اخراجات ادارہ اٹھاتا ہے جیسے کہ نقل و حمل۔ آمن کے پاس 20 ایمبولینس ہیں اور ہر گاڑی کے لیے ایک ڈرائیور ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ہم عطیات پر سروس چلاتے ہیں۔ ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی فنڈنگ یا امداد نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے موگادیشو کے میئر کے دفتر سے کہا اگر وہ ہمیں روزانہ 10 لیٹر پیٹرول فراہم کر سکیں لیکن ہم ابھی تک ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔’
‘صومالی لوگ بہت سخی ہوتے ہیں’
مگر ڈاکٹر ایڈن اقوام متحدہ سے تھوڑی مدد حاصل کر پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
45سالہ ڈاکٹر ایڈن کا کہنا ہے ‘عالمی ادارہ صحت نے ہمیں دو گاڑیاں خرید کر دیں۔ یو این ڈی پی نے چند واکی ٹاکی عطیہ کیے۔ ہم نے دبئی سے استعمال شدہ ایمبولینس خریدیں اور انھیں یہاں منگوایا۔ حال ہی میں موگادیشو میں واقع برطانوی سفارت خانے نے ہماری سروس کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ہاف میریتھون کا انعقاد کیا۔’
چندہ اکٹھا کرنا اور شہری حکام سے نمٹنا جنھوں نے حال ہی میں آمن ایمبولینس کے دھماکے کی جگہ پر جانے پر پابندی لگا دی، مشکل کام ہو سکتا ہے۔
مسئلے کی جڑ اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے دھماکوں میں ہونے والے زخمیوں کی تعداد کے بارے میں حکومت کی حساسیت ہے۔ جو کچھ آمن ایمبولینس کا طبی عملہ دیکھتا ہے وہ اکثراوقات سوشل میڈیا کا استعمال کر کے صحافیوں کو اس سے باخبر رکھتی ہے۔
گزشتہ ہفتے بی بی سی صومالی سروس کے فیس بُک اکاؤنٹ پر پابندی کی خبر نے کچھ لوگوں کو غصہ دلایا جنھوں نے حکومت کی طرف سے ‘امداد بند کرنے کے لیے’ مذمت کی۔
لیکن ڈاکٹر ایڈن نے مزاحمت کم کرنے کی کوشش کی۔ ‘میں نے پولیس کمشنر سے بات کی جنھوں نے پابندی ہٹائی لیکن انھوں نے کہا کہ ایمرجنسی کی طرف جانے سے پہلے ہمیں انھیں بتانا ہو گا۔ ہمیں میڈیا سے بات کرنے یا ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔’
علاقائی اتھارٹی کے ترجمان صلاح حسن عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ سب کچھ ایک غلط فہمی تھی اور بات ‘بہترین طرح سے ساتھ کام کرنے’ کی تھی۔
ایمبولینس سروس کی شروعات سے اب تک لوگوں کی سخاوت نے ڈاکٹر ایڈن کو بے حد خوش کیا ہے اور ان کے مطابق ایسے چھوٹے موٹے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘زندگی میں ہر انسان کا ایک مقصد ہوتا ہے اور میرے لیے سب سے قیمتی چیز انسانی زندگی ہے۔ وہ مجھے کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔’
وہ کہتے ہیں ‘اگرچہ ان کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی صومالی لوگ بہت سخی ہوتے ہیں۔ گزشتہ 30 سال سے ہمارا ملک افراتفری کا شکار ہے اور صرف بیرون ملکوں سے بھیجی جانے والی رقم کی وجہ سے چل رہا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا ‘ہمارا ملک دہائیوں سے صومالی تارکینِ وطن کی سخاوت اور نیک نیتی پر چل رہا ہے۔ آمن برادری کی مشترکہ کوشش ہے۔ ہمیں اپنے صومالی ساتھیوں کی بہبود کی باگ ڈور سنبھالنی پڑی۔’
‘ہم سیاسی نہیں ہیں’
حالانکہ شدت پسند گروہ الشباب کی طرف سے کیے جانے والے دھماکوں کی وجہ سے موگادیشو اکثر خبروں میں رہتا ہے مگر آمن ایمبولینس سروس کا قیام صرف اس قسم کے حملوں سے نمٹنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ ایڈن کا کہنا ہے کہ خواہ چھوٹا بچہ ہو، بچہ کی پیدائش کے لیے ہسپتال جانے والی عورت ہو یا ضرورت مند بوڑھا شخص، ایمبولینسیں وہاں جاتی ہیں جہاں ان کی ضرورت پڑتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ‘کسی بھی وجہ سے کسی کو بھی مدد درکار ہو، ہمارا ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والا عملہ اور نرسز تیار رہتے ہیں۔’
مستقبل میں ڈاکٹر ایڈن ایک ایسا صومالیہ دیکھتے ہیں جہاں کوئی بھی بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار نہیں ہو گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ آمن ایمبولینس کی سروس پورے ملک میں پھیل جائے۔
یہ شاید ایک نہ پورا ہونے والے خواب کی مانند ہے کیونکہ زیادہ تر دیہی علاقوں پر الشباب کا قبضہ ہے لیکن ڈاکٹر ایڈن پرعزم ہیں۔
سنہ2011 میں الشباب کو موگادیشو سے نکال دیا گیا تھا مگر اب بھی ا لشباب موگادیشو میں بھی کئی صومالی کاروباری شخصیتوں سے حفاظتی رقم لینے کے لیے جانی جاتی ہے لیکن وہ آمن ایمبولینس کو پریشان نہیں کرتی۔ ڈاکٹر ایڈن کہتے ہیں ‘ہم کاروبار نہیں کر رہے، ہم منافع نہیں کما رہے اور نہ ہی ہم سیاسی ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ الشباب کو ہم سے کیا چاہیے۔’
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).