عمران اور میانداد دونوں درست ہیں


میانداد عمران خان کے خلاف کریز پر آ گئے کیونکہ وہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے اور عمران شہروں کی کرکٹ کے حامی ہیں۔ جہانگیر خان جو اسکواش کے بے تاج بادشاہ اور اصلاح الدین جو ہاکی کے عظیم ترین کھلاڑی ہیں ڈیپارٹمنٹل سپورٹس کی طرف داری کر رہے ہیں۔ ابھی بہت سے اور بھی سامنے آ ئیں گے جو گھسی پٹی لکیر پیٹیں گے اور جواز ہو گا۔ نوکریاں۔ اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے کہ کرکٹ، ہاکی یا کسی بھی سپورٹس کے کھلاڑی کو جب مختلف ڈیپارٹمنٹ، ملٹی نیشنل، بزنس گروپس اپنی ٹیموں میں جگہ دیں گے تو وہ ساری زندگی پیسے پیسے کا محتاج ہو کر کھیل کو نہیں پالے گا بلکہ عام کرئیر بنانے والوں کی طرح اپنا کرئیر بنائے گا۔

یہ تو کارپوریٹ کی سماجی ذمہ داری بھی ہے کہ جہاں چند ٹکے لگا کر اربوں روپیہ کماتے ہیں وہاں سپورٹس، آرٹ اور کلچر میں بھی اپنے منافع میں سے حصہ ڈالیں۔ آج کل جس طرح ہم ایک دوسرے کے لئے مارکیٹ کھول رہے ہیں، سیاحت کو پروان چڑھانا چڑھانا چاہتے ہیں، خنجراب سے گوادر تک پر کشش دنیا بنا رہے ہیں، ہمیں بین الاقوامی کمپنیوں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے منافع میں سے کچھ فیصد ہمارے ملک میں سپورٹس کے لئے مختص کرے۔

جہاں تک ڈیپارٹمنٹ کی روایتی سپورٹس کا تعلق ہے وہ تو شاید خساروں کی وجہ سے ممکن نہ رہے کیونکہ ہر حکومت تو بندے فارغ کرنے اور خسارہ کم کرنے پر تلی ہوتی ہے البتہ بنک اور سیٹھ ( مقامی سرمایہ دار) سپورٹس کو اپنا سکتے ہیں لیکن یہ لوگ کیونکہ منافع کھائے بغیر کسی سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں ہوتے لہذا کسی کھیل یا فن کی سرپرستی ان کے تخیل سے ہی باہر ہے۔ جیسے کچھ میڈیا گروپس نے پی ایس ایل کو اپنایا ہے اور یقیناً اس کے پس پردہ محرک منافع ہی ہو گا بالکل ایسے ہی دوسرے بزنس گروپس کو بھی قائل اور پابند کرنا چاہیے۔

خان صاحب کا ہمیشہ سے کہنا ہے کہ کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ٹھیک ہونا چاہیے یعنی سکول، تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی کرکٹ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ اپنے شہر اور علاقے کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایک تو لوگ جان مارتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جب شہروں کے آپس میں میچز ہوں گے تو زیادہ جوش و خروش اور ”لاگت بازی“ ہو گی جو مقابلہ بازی کو فروغ دے گی۔ ظاہر ہے مقابلہ بازی کھیل کا جزولاینفک ہے لیکن خان صاحب ایک بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ یہ کہ جیسے آپ نے لوکل باڈیز تک اختیارات نہیں دیے ہوئے اسی طرح سب سے بڑا مسئلہ اختیارات اور فنڈز کی تقسیم کا ہے۔

تحصیل اور ضلع کی سطح پر بہت ہی گھٹیا سیاست ہوتی ہے۔ آپ اس بات کو یوں سمجھئے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جب بیٹنگ آرڈر اور ٹیم سیلیکشن نماز کی باقاعدگی یا سینئیرز کا بیگ اٹھانے سے مشروط ہو تو تحصیل سطح پر کیا ہوتا ہوگا خاص طور پر طبقوں میں بٹے ہوئے معاشرے اور کسی غیر جانبدار باڈی کے نہ ہونے پر۔ خان صاحب کا نظریہ بالکل درست ہے لیکن اسے ذرا وسیع تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو آپ اعلیٰ کرکٹ چاہتے ہیں تو شہروں کی کرکٹ ہونی چاہیے اور اگر آپ چند نوکریاں چاہتے ہیں تو ریلوے، پی آ ئی اے اور دوسرے ڈیپارٹمنٹس کو روتے رہیں۔

اس سارے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کرکٹ تحصیل و ضلع کی سطح پر ہی ہو لیکن مقامی اور غیر ملکی بزنس گروپس کو پابند کرنا چاہیے کہ کسی شہر کو اپنائیں۔ وہاں کی سپورٹس، آرٹ اور کلچر کو اپنائیں۔ یہ صرف کرکٹ تک نہیں بلکہ پولو، ہاکی، آرم ریسلنگ، کبڈی وغیرہ تک ہر کھیل کو اپنانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).