تاریخ کی راہداری، سبین کی موت اور سہ پہر کا مکالمہ


”پاروشنی نے اُسے ایک ہاتھ سے اٹھایا اور کہا تم بھی اس جھیل پر مرنے آ گئے۔ پرندہ مر چکا تھا“

میں نے بہاوؑ ناول دس سال پہلے پڑھا تھا مگر مجھے لگتا ہے یہ ناول مجھ پہ بیت گیا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں اسے تین دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ عبداللہ حسین سے مکمل اتفاق ہے کہ اردو ادب میں پاروشنی سے طاقتور نسوانی کردار نہیں تخلیق ہوا۔ عبداللہ حسین کا ”نادار لوگ“ بھی بہت بڑا ناول تھا مگر ”اداس نسلیں“ نے اسے دھندلا دیا۔ گو کہ میں نے لوگوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ لوگ وہ نہیں ہوتے جو وہ نظر آتے ہیں مگر پھر بھی مستنصر سے ایک نشست کی آرزو تھی جو اسلام آباد کے ادبی میلے میں پوری ہوئی۔ چار گھنٹے کی نشست نئے سوالوں پر منتج و تمام ہوئی مگر میں ابھی بھی پرندے، موت اور پانی میں الجھا ہوا ہوں۔

راگوں سے گندھی آواز میں نصرت کہیں صدا لگا رہا ہے :
”پنچھی مڑ گھراں نوں آ گئے تے کیوں چت نہیں کردا تیرا“

میں سوچنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ چار سو سناٹا ہے اور ایک مہیب خاموشی۔ مجھے اپنے موجود ہونے کا پچھتاوا ہے۔ ہاں میں اداس ہوں اس قدر اداس کہ بس۔ یہ ایک نا خوشگوار شام ہے اپنی پوری فضا کے ساتھ نا خوشگوار شام۔ ہوا عبث کی فضا میں بہہ رہی ہے اور میں بے کیفی میں سانس لے رہا ہوں۔

بقول غالب
”سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا
یاد آ گیا مجھے تیری دیوار دیکھ کر ”

میں سبین محمود کو اس سے پہلے نہیں جانتا تھا نہ میں اس کا کبھی مداح رہا ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے یہ ”لبرل“ کی بنیادی اصطلاح سے ہی اختلاف ہے لیکن اس کی ناگہانی موت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ کس کے ہاتھ پہ لہو تلاش کیا جائے؟ ہم ایسا حبس زدہ معاشرہ کیوں بن گئے؟ اظہارِ رائے اور مختلف بیانیے کے اوپر گردن اُڑا دینے کی روایت نے کہاں سے جنم لیا؟ یہ کون لوگ ہیں یہ تو ہم میں سے ہیں پھر ہمیں کیوں مار رہے ہیں؟ اس عمومی رجحان کے اوپر تعصب سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا۔ کیا ہم تاریخ کے جبر کا شکار ہیں؟

جارج کارلن یاد آیا:

“Religion is like a pair of shoes. Find one that fits for you, but don’t make me wear your shoes”

جون ایلیا نے کہا جو لوگ رائے اور اظہار کی آزادی اور آواز کے خلاف سوچتے ہیں وہ زندگی اور اُس کی روح کے ساتھ بد عہدی کرتے ہیں۔ کسی نامانوس شاعر کی نظم یاد آئی۔

”ہم اکیسویں صدی کے معاشرے کے
با شعور پڑھے لکھے شہری ہیں
سو دلیل کی بات مانتے ہیں
بندوق کو لبِ اظہار دیتے ہیں
اختلاف کرنے والے کو مار دیتے ہیں ”

ڈاکٹر مجیب افضل سے پوچھا کہ یہ لاقانونیت اور شرپسندی اور سماجی متشددیت کا اس خطے میں ارتقا اور نمو کیسے ہوا؟ میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں ڈاکٹر مجٰیب افضل جیسی قدآور علمی شخصیت نہیں دیکھی۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ آج میں جس بھی مقام پر ہوں ڈاکٹر صاحب کے مرہون منت ہوں۔ انڈیا کے اوپر شاید اس وقت پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کے پائے کا ایک بھی محقق، استاد یا مصنف نہیں ہے۔ گفتگو گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ برصغیر کبھی ایک حکومت کے زیر انتظام نہیں رہا۔

اشوکا، کنشک، بلبن، ایبک، مغل کبھی سارے انڈیا پہ اپنا مکمل اثر و رسوخ نہیں بنا پائے۔ انڈیا پر ہمیشہ چھوٹی ریاستوں اور رجواڑوں کے ذریعے حکومت کی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قانون اور اس کی عملداری کبھی یکساں نہیں رہی۔ سوائے انگریز راج کے نوے سال کے ادارہ جاتی عملداری اور قانون کی حکمرانی کا تصور برصغیر پاک و ہند میں رائج اور راسخ نہیں رہا۔ آزادی کے بعد بھی جتنا عرصہ تو نوآبادیاتی ڈھانچہ قائم اور با اثر رہا قانون اپنی کسی نہ کسی حالت میں موجود رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں مقامیت پروری نے فروغ پایا قانون نے امتیازیت کا پیرہن لے لیا اور یوں امن و امان، بغاوت کے جذبات، سماجی نا انصافی اور شوریدہ سری نے معاشرتی اور سماجی اصولوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ آج ہم اسی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔

محسن نقوی یاد آتے ہیں :
”زندگی بھر عذاب سہنے کو
دل ملا ہے اداس رہنے کو ”

یہ مسلسل زوال پزیری ہی ہمارا مقسوم کیوں؟ جون ایلیا پھر یاد آئے کہا ”ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خواری کے سوا کچھ نہیں کر رہے“۔ ہم تاریخ کے بہت قابلِ رحم لوگ ہیں۔ ہمارا ماضی ندامت ثابت ہوا، ہمارا حال نہوست ہے اور ہمارا مستقبل نا امیدی ہے۔ آئیے تاریخ کے اوراق پر اپنے بد بختی کے اسباب تلاش کرٰیں۔ کرنل اسماعیل صاحب فرمایا کرتے تھے :

”گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را ”

کیا کوئی حل ہے؟ جو سماج افلاس اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی صحت مند خواب کیا دیکھے گا اور شاید اس کا حق بھی نہیں رکھتا۔ تعمیر اور ترقی کیا اس قام کو اوپر لے کر آئے گی؟ تعمیر اور ترقی تو تاریخ گواہ ہے کہ وہاں کامیاب رہی جہاں تعلیمی اور معاشی ترقی ایک خاص مقام تک پہنچیں۔ اس ضمن میں بھی ہم ذہنی بدکاری کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

ہائے میرے عہد کے منفرد لہجے کا شاعر گلزار:
”سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں
اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
سانس لیتے ہیں جیتے رہتے ہیں ”

لکھنے میں دکھن ہے اور پڑھنے میں دکھ ہے۔ بولنے میں آزار ہے اور سننے میں اداسی ہے۔ جو کچھ لکھا اور پڑھا سب رائیگاں گیا جو کچھ کہا گیا اور سنا گیا سب کارِ دشت کی سیاہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس سے فرار بھی نہیں۔ زاہد امروز بھی کیسا خوش نصیب ہے نم آلود ستارے کی طرف ہجرت کا سوچتا ہے ہمارے تو مقدر میں اسی برزخ میں مٹی ہونا لکھا ہے۔

آئیے اداسی میں مزید اداسی کو شامل کرتے ہیں اور جون کو پڑھتے ہیں :
”تمہارے نام تمہارے نشان سے بے سروکار
تمہاری یاد کے موسم گزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظرِ بے ہجر و وصل ہے جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں
نہ وہ نشاط تصور کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخم دل کی ہے سوزش کوئی جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے نہ سحر

نہ شوق کی ہے کوئی داستاں جو کہنی ہو
نہیں جو محملِ لیلاے آرزو سرِ راہ
تو اب فضا میں فضا کے سوا کچھ نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سوا کچھ نہیں

اتار دے جو کنارے پہ ہم کو کشتیِ وہم
تو گرد و پیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
توخواب میں بھی انھیں خواب ہی سمجھتے ہیں
نہ کوئی زخم نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور ایک زمانے میں

”جہاں بھانت بھانت کے لوگ ہوں۔ اندر کے، باہر کے اور جہاں امن نہ ہو وہاں نام رکھتے ہیں۔ اور جہاں لوگ بستی نہ ہوں وہ نام رکھتے ہیں۔ ہم تو خود بستی ہیں۔ ہم یہاں نہ ہوں تو وہاں ہوں تو وہاں بستی ہوگی، تو نام کیوں رکھیں۔ دریا تو شروع ہوتا ہے مڈھ قدیم سے، جیسے ہم ہوتے ہیں، ہم کب سے ہوتے ہیں؟ “

(یہ تحریر تین سال قبل سبین محمود کی موت پہ لکھی گئی تھی)
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).