سری لنکن حملے: ملک بھر میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد


سری لنکا

سری لنکن حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شناخت کے عمل کے لیے عوام کے چہرے دکھائی دیے جانے چاہییں

سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد کیے جانے والے ہنگامی اقدامات کے تحت ملک بھر میں پیر سے چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ملک کے صدر میتھریپالا سریسینا کا کہنا ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال اس پابندی کی وجہ بنی ہے۔

21 اپریل کو ہونے والے دھماکوں میں کم از کم 250 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکثریت سری لنکن مسیحیوں کی تھی۔

سری لنکن حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شناخت کے عمل کے لیے عوام کے چہرے دکھائی دیے جانے چاہییں تاہم اس اعلان میں باقاعدہ طور پر نقاب یا برقعے کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس کا استعمال مسلمان خواتین اپنے چہرے ڈھانپنے کے لیے کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ ان حملوں کے لیے سخت گیر اسلامی گروپ قومی جماعت توحید کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے اور کہا گیا ہے کہ حملہ آور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے متاثر تھے جس نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سری لنکا مسلح جھڑپ کے بعد 15 لاشیں برآمد

سری لنکن سکیورٹی فورسز کو سفاک حریف کا سامنا

نیشنل توحید جماعت پر حملوں کا الزام اور کئی سوالات

سری لنکا: حملوں کے بارے میں تنبیہ کو نظرانداز کرنے کا اعتراف

اس سے قبل اتوار کو سری لنکن پولیس نے بتایا کہ جمعے کو سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے مبینہ منصوبہ ساز ظہران ہاشم کے والد اور دو بھائی بھی شامل ہیں۔

سکیورٹی فورسز

پولیس نے اتوار کو قومی توحید جماعت کے مرکزی دفتر کو سیل کر دیا

ظہران ہاشم نے کولمبو کے ایک ہوٹل میں خودکش دھماکہ کیا تھا اور انھیں قومی جماعت توحید کا بانی قرار دیا جا رہا ہے جسے سری لنکن حکومت نے اب کالعدم قرار دے دیا ہے۔

ظہران نے والد اور بھائی کٹنکڈی کے مشرقی قصبے میں اس جماعت کے ہیڈکوارٹر پر پولیس کے چھاپے کے دوران ہلاک ہوئے۔

حکام کے مطابق اس کارروائی کے دوران مسلح افراد نے پولیس پر فائرنگ کی اور پھر تین افراد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے ان سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے جن میں چھ بچے اور تین خواتین بھی شامل تھیں۔

ان کے علاوہ تین افراد فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے اتوار کو قومی توحید جماعت کے مرکزی دفتر کو سیل کر دیا۔

ظہران ہاشم کے خاندان کے ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ جمعے کو مرنے والوں میں ظہران کے والد اور دو بھائی بھی شامل تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے پولیس ذرائع نے مرنے والوں کے نام محمد ہاشم، زینی ہاشم اور رلوان ہاشم بتائے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار انبراسن ایتھیراجن کے مطابق پولیس کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ ظہران کی والدہ بھی مرنے والوں میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں سکیورٹی فورسز ملک بھر میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دھماکوں کے تناظر میں چھاپے مار رہی ہیں لیکن جس عمارت میں جمعے کو کارروائی ہوئی اس کا پتا اتفاقیہ طور پر چلا اور پولیس کو اس کے بارے میں مقامی افراد اور مکان کے مالک کے شبہ ہونے پر خبر دی تھی۔

مقامی میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملوں کے بعد اب تک گرفتار کیے جانے والوں کی تعداد 80 ہو گئی ہے۔

نامہ نگار کے مطابق ملک میں دھماکوں کے بعد ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان تناؤ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک ہوٹل کی مالک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پریشان ہیں کیونکہ وہ ایک کیتھولک ہیں جبکہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں جاتے ہوئے خوفزدہ ہو جاتے ہیں جہاں سنہالا آبادی کی اکثریت ہے۔

سری لنکا کی کُل دو کروڑ سے زائد کی آبادی میں سے تقریباً 10 فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے 800 سے زائد احمدی بھی اقوام متحدہ کی مدد سے یہاں مقیم ہیں۔

حملہ آور کون تھے؟

سری لنکا میں ہونے والے خودکش حملوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نو افراد نے کیے تھے۔ سری لنکن حکومت کے مطابق حملہ آور ‘تعلیم یافتہ’، ‘متوسط‘ اور ’امیر’ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان کی منصوبہ بندی کا الزام قومی توحید جماعت کے بانی اور شدت پسند مبلغ رہنما ظہران ہاشم پر لگایا گیا ہے جو سری لنکن صدر کے مطابق کولمبو میں شنگریلا ہوٹل پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوا۔

سری لنکن صدر کے مطابق ظہران نے سیاحتی ہوٹل پر ہونے والے حملے کی قیادت کی تھی اور اس میں ان کے ساتھ الہام نامی ایک خودکش حملہ آور نے دیا تھا جو کہ سری لنکا میں مسالوں کے کاروبار سے منسلک شخصیت محمد یوسف ابراہیم کا بیٹا بتایا جاتا ہے۔

محمد یوسف کا شمار سری لنکا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کا ایک اور بیٹا بھی ان حملوں میں مارا گیا ہے۔

ظہران ہاشم

ظہران ہاشم نے سیاحتی ہوٹل پر ہونے والے حملے کو لیڈ کیا تھا

محمد یوسف کے دوسرے بیٹے نے سینامن گرینڈ ہوٹل پر حملہ کیا تھا جو شنگریلا سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ حملوں کے بعد انھیں حراست میں لے کر تفشیش کی گئی تھی۔

ان حملوں کے بعد جب پولیس نے محمد یوسف کے ایک بیٹے کے گھر پر چھاپہ مارا تو ان کی بیوی نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا۔ تین پولیس افسران اور ان کے بچے بھی اس دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔

وائٹ ہال کے ایک سینئیر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک حملہ آور نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ عبداللطیف جمیل محمد نے سنہ 2006-07 کے دوران کنگسٹن یونیورسٹی سے ایرو سپیس انجئینرنگ کی تعلیم شروع کی تاہم انھوں نے اپنی ڈگری مکمل نہیں کی تھی۔

ظہران ہاشم کون تھا؟

سری لنکن دھماکوں کے مبینہ منصوبہ ساز ظہران ہاشم کا نام چند برس قبل اس وقت سامنے آیا جب انھیں مقامی طور پر اس گروہ سے جوڑا گیا جس نے بدھا کے مجسموں کا چہرہ مسخ کیا تھا۔

اس کے بعد ان کی یو ٹیوب پر پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔ ہاشم نے یو ٹیوب پر ایسا مواد شئیر کیا جس میں غیرمسلموں پر تشدد کی ترغیب دی جاتی تھی۔

سنڈے ایسٹر کے حملوں کے چند روز بعد انھیں سات دیگر افراد کے ساتھ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا جس میں انھوں نے دولت اسلامیہ سے اپنی وفاداری کا عہد کیا تھا۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ہاشم دولتِ اسلامیہ کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھا یا انھوں نے صرف اس گروپ سے وفاداری کا عہد کیا تھا۔ دولت اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp