انڈین الیکشن: کمیونسٹوں کے لیے الیکشن تحریک کے وجود کی لڑائی بن گیا


کمیونسٹ

انڈیا کی سیاست میں کمیونسٹ نظریے نے اعتدال پسندی اور ترقی پسندی کے رحجانات کو ایک طویل عرصے تک فروغ دیا ہے۔

ملک کی سیاست پر تقریبآ ایک صدی تک اثرانداز ہونے کے بعد ملک کی انتخابی تاریخ میں کمیونسٹ جماعتیں پہلی بار سخت ترین چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں۔

سنہ 2004 کے انتخابات میں کانگریس کو اکثریت نہیں مل سکی تھی اور منموہن سنگھ کی حکومت کی تشکیل میں دوسری جماعتوں کے ساتھ ساتھ بائیں محاذ کا انتہائی اہم کردار تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کمیونسٹ سیاست کا خاتمہ

انڈیا کو برقی ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ کیوں نہیں؟

انڈیا:’10 ارب ڈالر‘ کے انتخابات، فائدہ کس جماعت کو؟

اس وقت بائیں محاذ کو 59 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ سنہ 2009 کے انتخابات میں یہ کم ہو کر 24 رہ گئیں اور 2014 میں ان میں مزید 50 فیصد کی کمی دیکھی گئی اور بائیں محاذ کو صرف 12 نشستیں ملیں۔

ڈاکٹر نندنی مکھرجی

ڈاکٹر نندنی مکھرجی جنوبی کولکتہ سے بائیں محاذ کی امیدوار ہیں

اس مرتبہ کمیونسٹ جماعتیں بنگال کی 42 میں سے 40 اور کیرالہ کی 20 نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بائیں محاذ نے بہار، تمل ناڈو، تریپورہ اور بعض دوسری ریاستوں میں بھی کچھ امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

کمیونسٹ جماعتیں مغربی بنگال میں مسلسل 34 برس تک اقتدار میں رہیں جبکہ کئی عشرے سے وہ کیرالہ میں ہر پانچ برس کے وقفے کے بعد اقتدار میں آتی رہی ہیں۔

شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں بھی برسوں تک ان کی حکومت رہی جہاں اب بی جے پی کی حکومت ہے۔

بنگال میں آٹھ برس قبل ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس نے بائیں محاذ کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا اور اب وہاں بھی بی جے پی رفتہ رفتہ کمیونسٹوں کی جگہ لے رہی ہے۔

کمیونسٹ

کمیونسٹ جماعتیں بنگال کی 42 میں سے چالیس سیٹوں پر اور کیرالہ کی بیس سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ بائیں محاذ نے بہار، تمل ناڈو، تریپورہ اور بعض دوسری ریاستوں میں بھی کچھ امیدوار کھڑے کیے ہیں

ڈاکٹر نندنی مکھرجی جنوبی کولکتہ سے بائیں محاذ کی امیدوار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کمیونسٹوں کا زوال دس برس قبل بنگال کے سیاسی بحران کے سبب ہوا۔‘

ان کے مطابق ’بہت سی سیاسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور پھر غیر ملکی طاقتوں نے بھی بنگال کی کمیونسٹ حکومت کو تباہ کرنے میں مدد کی۔‘

لیکن مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے برگشتہ نوجوان رکن پارلیمان ریتا برتا بینرجی کہتے ہیں کہ کمیونسٹ جماعتیں نہ صرف زندگی کی حقیقتوں سے کٹ چکی ہیں بلکہ وہ بدلے ہوئے وقت اور ماحول کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں ’ان کا سب سے بڑا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ وہ عوام کی زبان بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ وہ حقیقتوں سے کٹ چکے ہیں ۔‘

کمیونسٹ

ان کے مطابق ’یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ اگر آپ لوگوں سے کہیں کہ آپ موبائل نہ استعمال کریں تو وہ کیا سوچیں گے۔‘

تاہم کمیونسٹ رہنما کنینکا بوس پرامید ہیں اور ان کا خیال ہے کہ بائیں محاذ کی یہ پستی عارضی ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا نظریہ صحیح ہے۔ وہ کسانوں کے بارے میں، غریبوں کے بارے میں ہے، وہ خواتین کے لیے تحریک سے وابستہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو ذرا سمجھانا پڑےگا۔ لوگ آج نہیں تو کل اس نظریے کو پھر سمجھیں گے۔‘

کمیونسٹ

رواں پارلیمانی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹیوں کو اپنی انتخابی تاریخ کے مشکل ترین چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ انتخاب ان کے لیے محض ہار جیت کا سوال نہیں ہے۔ یہ ملک کی انتخابی سیاست میں کمیونسٹ تحریک کے وجود کی لڑائی بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp