ڈی جی آئی ایس پی آر کے پریس کانفرنس سے امن کو کتنا فائدہ ہوا؟


نائن الیون کے بعد پشتون علاقوں میں بدامنی کی بدترین لہر آئی، بالعموم فاٹا اور بالخصوص وزیرستان میں مظالم کی ایسی ایسی داستان رقم ہوئیں کہ یہاں کے ہر فرد کے منہ سے تلخی کے سوا اس وقت کچھ اور باتوں کا تقاضا کرنا عقل کی بات نہیں ہو سکتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے پڑیں گے۔ جب وزیرستان میں طالبانائزیشن کا بدترین دور شروع ہوا تو ابتدا میں حالات ایسے نہیں تھے کہ کنٹرول نہ کیے جاسکتے لیکن ہمارے اقدامات ایسے تھے کہ جیسے جان بوجھ کر موقع پیدا کیا گیا کہ نئے حالات پنپتے رہیں۔

کئی بار مذاکرات کیے گئے امن معاہدے ہوئے لیکن ان معاہدوں کی کامیابی محض چند دنوں تک ہی محدود رہی اور پھر بہانوں سے معاہدوں کو تاریخ بنادیا گیا۔ اس دوران عام لوگوں کو کسی گنتی کا حصہ نہیں بنایا گیا اور یوں لگتا رہا کہ فریقین کا بنیادی ٹارگٹ ایک ہی ہے اور وہ ہے عام لوگ جس کی وجہ سے آج کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ پشتون تحفظ مومنٹ کے وجود میں آنے کے بعد ہم سب کی یہ خواہش رہی کہ کسی نہ کسی طرح مذاکرات سے افہام و تفہیم سے معاملات کا حل ڈھونڈا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی سطح پر وہ کردار ادا نہیں کیا گیا جو وقت کی ضرورت تھی، طاقتور حلقوں کی طرف سے معاملات کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کی ضرورت تھی بلکہ ایک طرح سے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے معاملات کے حل کو بس اتنا سمجھ لیا کہ بھئی آپ کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں لیکن ان زیادتیوں کے ازالے کے لیے عملی قدم اٹھانے کے برعکس اگلی بار بھی یہی کہا گیا کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے حالات درست ہونے کے برعکس مزید خراب ہوئے۔

مذاکرات کے حوالے سے ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کہ پی ٹی ایم کے نام پر سامنے آنے والا نوجوان ایک چیز پر زیادہ یقین رکھتا ہے کہ جو بھی ہو آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے کیونکہ ماوراء آئین جتنا کچھ ہوچکا ہے ان کا ایک تلخ تجربہ ہے ان سب کو اور میری نظر میں سیاسی طور پر اس وقت ملک کے کسی کونے میں بھی نوجوانوں کا اتنا میچور جتھہ کہیں اور نہیں ہو سکتا جتنا پی ٹی ایم کے پاس ہے اور ایک اور چیز بھی سمجھنی ہوگی کہ ان نظریات میں بالخصوص آئین کے حوالے سے انتہائی حد تک یکسوئی ہے کہ اب اگر کوئی ہمارے ساتھ آگے جانا چاہتا ہے تو آئین کے تحت آگے بڑھے نہ کہ کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جائے حالانکہ زمینی حقائق ان نوجوانوں کے خواہشات کے بالکل برعکس ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ دن پہلے پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پاشتین بذات خود سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں شریک ہوئے جہاں ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے اہم سینٹرز شریک ہوئے جس میں منظور پاشتین نے اپنی باتیں سامنے رکھیں تھیں کہ ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین تو ہو کہ ہمارے مسائل کا حل نکالا جارہا ہے اور اس ملاقات کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات رکارڈ کا حصہ ہیں کہ ہم نے منظور پشتین کو سنا ہے اور کئی چیزیں حل طلب ہیں، ساتھ قوم کو امیدیں بھی دلائی تھیں کہ اگلی بار مثبت چیزیں سامنے آئیں گی۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد واقعی حالات مثبت طرف جاتے، پہلے عمران خان نے وزیرستان میں آکر نوید سنائی کہ بڑے سخت حالات آرہے ہیں اور اب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم پر بیرونی فنڈز لینے کے علاوہ سخت الزامات لگائے اور پریس کانفرنس میں جن تاریخوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے کہ اس وقت آپ کو فنڈنگ کہاں سے آئی اس کے بعد کے دنوں میں خود ڈی جی آئی ایس پی آر نے منظور پشتین کو ونڈرفل بوائے قرار دیا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں جتنا میرا تجربہ ہوا ہے اس کے تناظر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پہلی بار حالات کے تناظر میں کورکمانڈر کے لیے اچھا انتخاب کیا گیا ہے جو کئی چیزوں کو مثبت انداز میں آگے بڑھاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان پالیسی بیان ہے تو یہ ان کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہونے چاہئیں البتہ اگر یہ آصف غفور صاحب کے ذاتی فرائض کا حصہ ہیں تو پھر تو رونے کا مقام ہے کیونکہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ آپ اس وقت منظور پشتین اور یہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں بڑھ سکتے، ہر گھر کے نوجوان پی ٹی ایم میں شامل ہے اور ہر والد بھائی ماں یہی چاہے گی کہ ایک بار پھر کسی نام سے نقصان نہ ملے ہاں مجموعی نقصان ملتا ہے تو لوگ شاید اس وجہ سے قبول کریں کہ بڑے تلخ تجربات سے گزرے ہیں، پل پل موت کا نظارہ کرکے جیتے آئے ہیں اپنے پیارے کھوئے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت اگر آپ اس علاقے کی بہتری کے لئے کچھ مثبت کررہے ہیں جس کے اب آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں تو آپ کو پہلے اس پر تھوڑا کام کرنا چاہیے اگر چیزیں حل ہوتی ہیں کچھ اعتبار بنتا ہے لوگوں کو اعتماد ملتا ہے تو آپ کا مقصد ویسے ہی حل ہوجانا ہے کیونکہ اگر میرے پاس کہنے کے لیے کوئی ٹھوس بات نہ ہوگی تو میں کس طرح کسی پر الزام لگا سکوں گا؟ اگر لگاؤں گا بھی تو لوگوں کو پتہ ہوگا وہ میرا اعتبار کبھی نہیں کریں گے بلکہ یہاں کے لوگوں نے اتنی تکلیفیں جھیل لی ہیں کہ قومی مفادات سمجھ گئے ہیں اور جب موقع نہیں ہوگا کسی کے پاس تو یہاں علاقائی سطح پر بھی اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی لہٰذا آپ پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم حالات کا حل چاہتے ہیں یا نہیں؟

اگر چاہتے ہیں تو کیا اس طرح ہم حل کے بجائے مزید خرابی کی طرف نہیں جارہے؟ ابھی کچھ دنوں کی کوششوں کی بات کی ہے کہ کچھ مثبت چیزیں ہوئی ہیں جیسے کہ وزیرستان میں ایجوکیشنل سٹیز کے علاوہ محسود قبیلے کے ساتھ سروے مذاکرات کی کامیابی، لینڈ مائنز کے شکار لوگوں کو مصنوعی اعضاء لگانے کے حوالے سے یہاں کے نوجوانوں کی شرکت کے علاوہ منظور پشتین کی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ساتھ ملاقات یا غیر رسمی مذاکرات کے بعد حالات میں بہتری محسوس کی جارہی تھی لیکن اتنا اچانک ہوا کیا کہ سب چیزوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی؟

کیا ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب نے جلدبازی کا مظاہرہ تو نہیں کیا؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جس کا جواب وقت دیگا لیکن تب شاید وقت ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).