منصف کے چہرے پہ بہتا ہوا خون اور انصاف؟


اختلاف اور اختلاف رائے بنیادی انسانی جبلت ہے۔ اور تنازعات، مناقشے لڑائی جھگڑے حیوانی جبلت کا خاصہ ہیں۔ جب انسان دوسرے حیوانوں کے ساتھ غیر متمدن جنگلوں میں رہائش پذیر تھا تو وہ بھی دیگر حیوانوں کی طرح طاقت کے اصولوں پر عمل پیرا تھا۔ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہی پوری قوت سے نافذالعمل تھا۔ مرور زمانہ کے ساتھ انسان جنگلوں سے نکلا اور حیوانوں سے الگ اک انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ اور باہمی اختلاف و نزاع کو نمٹانے کے لیے پنچائت، جرگہ، جیوری پر انحصار کرنے لگا۔

جوں جوں انسانی معاشرے متنوع ہوتے گئے توں توں اس میں پیش آمدہ تنازعات کی پیچیدگیوں کے مطابق نئے قوانین اور انصاف کے ادارے بنتے گئے۔ قانون اور انصاف کے ضمن میں بنیادی ترین اصول ہے قانون کی نظر میں سب کی برابری کا۔ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پربندھی پٹی اسی حقیقت کی غماز ہے۔ مذہب کی بات کریں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ کر دی گئیں کہ جب ان میں کمزور جرم کرتا تھا تو اس پر قانون کا نفاذ کر دیا جاتا لیکن با اثر مجرم کو چھوڑ دیا جاتا۔ “ اور یہ صورتحال بدرجہ اتم ہمارے سماج میں موجود ہے۔

۔ وطن عزیز میں ماتحت عدالتوں سے لے کر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک کا عدالتی نظام فراہمی انصاف کے بنیادی وظیفہ کی ادائیگی کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کے کل پرزے اس انداز سے ڈھیلے ہوئے ہیں کہ یہ نظام طاقتور کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن کر رہ گیا ہے۔ اس نظام سے نہ مدعی مطمئن ہے اور نہ ہی مدعا علیہ کو اطمینان قلب ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف ہو گا۔ اور تو اور بار اور بنچ کے مابین بھی اعتماد کی وہ فضا نہیں جسے مثالی کہا جا سکے۔

مالی بدعنوانیوں اور اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق معاملات میں بروئے کارآنے والے ہمارے ادارے ایف آئی اے۔ ایف بی آر اور قومی احتساب بیورو بھی عوامی اعتماد نہیں جیت سکے۔ نیب کے متعلق تو یہ رائے پختہ تر ہے کہ اسے سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ق لیگ پی پی پی پیٹریاٹ بنانے سے لے کر ہماری ممدوح پی ٹی آئی میں رونق لگانے تک نیب کی کارگردگی نا قابل فراموش ہے۔ حالیہ دنوں میں اطلاعات کی مشاورت پانے والی فردوس عاشق اعوان جس طرح ایک دن میں نیب کیس سے نکلیں یہ امر کافی دلچسپ اور نیب کے احتساب کی قلعی کھولتا ہے ہماری ماتحت عدالتوں سے سزائے موت پانے اور 20 برس بعد عدالت عظمی سے بری ہونے کے واقعات بھی اخبارات اور ٹیلیویژن کی زینت بن چکے ہیں۔

۔ ہمارے نظام انصاف کے اس انحطاط کا نقطہء آغاز اگر نظریہ ضرورت کی ایجاد کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگاخصوصی حالات کا بہانہ بناتے ہوئے جب ہم نے انصاف کے تقاضوں کو با لائے طاقت رکھا تو ہم نے اس اظہر من الشمس حقیقت کو فراموش کر دیا کہ انصاف کبھی جزوی نہیں ہوتا یہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ انصاف کے چمن زاروں سے وادئی ظلم و جور کی جانب ڈھلوان کا ہمارا یہ سفر جاری ہے۔ اور ہم بحیثیت قوم پھر اسی حیوانی سطح پر اتر آئے ہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے۔

مشرف صاحب کے مارشل لاء کو جواز بھی اسی سوچ نے بخشا اور طاقت کی دیوی موسوم بہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا نے والے تمام عدالتوں کے معزز ججز صاحبان کو کھڑے کھڑے نکال دیا گیا۔ طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہونے کی اس سوچ نے ہمارے سماج کو عمومی طور پر قانون شکنی پر شہ دی۔ کیونکہ جب اک عام آدمی نے دیکھا کہ متفقہ آئین کو روندتے ہوئے اگر اک طاقتور اپنی من مانی کر سکتا ہے اور ہمارا نظام انصاف منہ تکتا رہتا ہے تو اس میں بھی قانون کو ہاتھ میں لینے اور بچ نکلنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

اور وہ بھی دھونس کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکل پڑتا ہے اور باعث تشویش امر یہ ہے کہ وہ نظام انصاف کو چکمہ دینے میں کامیاب رہتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو اپنے شہر کے کسی بھی بلڈر کے ہاتھوں زمین گنوانے والے حقیقی مالکان کو قانون کی بھول بھلیاں میں رلتے ہوئے دیکھ لیں اور ان کی مقبوضہ جائیداد پر سوسائٹی بن کربک بھی چکی ہوگی۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی تک ہمارے عدالتی نظام میں زور آور کی مداخلت کے واضح آثار ملتے ہیں۔

پرسوں پر لے روز وطن عزیز کی ایک ماتحت عدالت میں ایک وکیل صاحب نے مبینہ طور پر کرسی مار کر عدالت میں مسندانصاف پر متمکن معزز جج صاحب کو زخمی کردیا اور ملزم وکیل صاحب فرار بھی ہو گئے۔ یہ طاقتور کی طرف سے منصف اور انصاف پر اثر انداز ہونے کی پہلی اور آخری کوشش نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو ماتحت عدالتوں میں آئے روز کا معمول ہے دوسری جانب دہشتگردی اور ریاست مخالف سنگین جرائم میں ملوث ملزمان سے منصف کو جان کا خطرہ الگ ہے۔ اور ایسے ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے ہمیں خصوصی فوجی عدالتوں کا سہارا لینا پڑا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جو منصف خود ملزم کے ہاتھوں خود کو محفوظ متصور نہ کرے وہ سائل کو کیا انصاف دے پائے گا

۔ نظریہ ضرورت کی ایجاد، افتخار چوہدری صاحب اور دیگر معزز جج صاحبان کی بر طرفی اور نظر بندی، شوکت عزیز صدیقی کی پویلین واپسی، اور دھرنا کیس کے بعد چسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم ہمارے عدالتی نظام پر طاقت کی یورش کی کہانی ہے۔

خدا معلوم ہم اس نظام انصاف کے ساتھ اقوام عالم میں باعزت زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ یا ہمیں نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا چاہیے یا معزز جج کے ساتھ وکیل صاحب کی سر پھٹول پر بد مزہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ عربی محاورے کے مطابق :

الناس علی دین ملو کھم (عوام اپنے حکمرانوں کی پیروی کرتے ہیں ) اور جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق ہر کوئی حصہ بقدر جثہ وصول کر رہا ہے۔ اور منصف کے چہرے پہ بہتا ہوا خون 20 کروڑ عوام کے ارمانوں کا لہو ہے۔ اور نظام انصاف زبان حال سے کہ رہا ہے کہ کسے وکیل کریں؟ کس سے منصفی جاہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).