بوڑھی ماں کو زندہ دفن کر دیا


پیارے بیٹے! سلام، ڈھیر ساری دعائیں، محبتیں، رب کی رحمتیں اور خوشیوں کی برسات ہو آپ پر۔

کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ کو لکھوں لیکن صحت کچھ ٹھیک نہیں اور سوچا آپ کو بتا کر کیوں پریشان کروں۔ آج طبیعت ذرا بہتر ہے تو لکھ رہی ہو۔

آج ایک بیٹا اور امی آپس میں لڑ رہے تھے۔ پھر اس کے بعد امی جی اس کو بدعا دے رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ بچوں کو کتنی دعاؤں سے مانگا جاتا ہے ان کو بدعایئں کون دیتا ہے۔

وقت گزر گیا۔ شادی کے بعد جب اولاد نہیں تھی تو ہم کتنی دعائیں کرتے تھے۔ میں اور آپ کے ابو جی جدھر کوئی ڈاکٹر، حکیم، پیر فقیر نظر آتا پہنچ جاتے تھے۔ اولاد کی خواہش نے پاگل کردیا تھا۔ ہماری زندگی میں ایک ہی کمی تھی اور وہ اولاد کی کمی تھی۔ پھر کئی سال بعد اللہ نے بیٹی دی۔ خوشی بہت تھی۔ اللہ کا شکر ادا کیا لیکن چند سال بعد بیٹے کی خواہش نے دل میں جنم لیا۔ پھر وہی ڈاکٹر، حکیم اور پیروں فقیروں والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میری تو عبادت کا مقصد ہی بس اللہ سے ایک بیٹا مانگنا ہوا۔ میں اور آپ کے ابو جی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ گئے ادھر اللہ سے مانگا اور اس کے محبوب کے واسطے دیے۔ ہم نے ادھر جا کر اپنے لئے جنت یا کوئی اور چیز نہیں مانگی۔ بس آپ کو ہی مانگا۔ ہم نے ساری محبتیں، خواہشیں، عبادتیں آپ کے لئے قربان کیے۔

اپ کی پیدائش کے بعد تو مجھے لگا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ میں نے پھر کچھ نہیں مانگا۔ آپ کی خوشی میری خوشی تھی۔ آپ بیمار ہوتے تو آپ کے لئے ڈاکٹروں سے لڑتی کہ میرے بچے کو جلدی ٹھیک کرو۔ آپ کے درد سے مجھے زیادہ تکلیف ہوتی۔ میں رب سے دعا کرتی تھی کہ میری زندگی بھی آپ کو دے لیکن آپ کو کچھ نہ ہو۔ آپ کی صحت ٹھیک رہے۔ آپ خوش ہو، آپ سلامت ہو۔

بیٹا میں نے آپ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ تو سب مائیں کرتی ہیں۔ مائیں جو کچھ کرتی وہ محبت میں کرتی ہیں۔ وہ صلہ مانگتی ہیں نہ بدعایئں دیتی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے بعد اگر کسی کی محبت بغیر کسی لالچ کی ہے تو وہ ماں کی ہے۔ ماں کو کسی چیز کی لالچ نہیں ہوتی۔ ہاں ایک چیز کی لالچ ہوتی ہے اور وہ ہے کہ بچہ خوش و سلامت ہو۔

بیٹا اس شام آپ کسی بات پہ اداس تھے۔ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ میں نے وجہ پوچھی اور اپ کو برا لگا۔ آپ کو غصہ آیا اور مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں دروازے کے باہر کافی رات گئے تک بیٹھی رہی لیکن آپ نے مجھے آواز نہیں دی۔ سوچتی رہی آپ دروازہ کھول کر مجھے اندر لے جاؤ گے لیکن جب کافی دیر ہوگئی تو مجھے بہت بھوک لگی۔ میں نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ کہیں آپ کی نیند خراب نہ ہو۔ میں کھانے کی تلاش میں ادھر سے اٹھی۔

عمر کوئی 74 برس تو میری ہے۔ نظر بھی کمزور ہے تو میں راستے میں گر گئی۔ کچھ لوگوں نے مجھے ہسپتال لے جایا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ میری دو ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔ بیٹا آپ کو تو کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر قصائی ہیں، ظالم ہیں، لالچی ہیں لیکن بیٹا میں اتنے دونوں سے ادھر ہوں مجھے تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔

میرے پاس وہ دس روپے کی پرچی کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے میرا علاج کیا۔ نرسیں بیٹیوں کی طرح خیال رکھتی ہیں۔ باقی عملہ بھی بہت بہتر ہے۔ ساتھ والے مریضوں سے دوستی ہوگئی ہے۔ اب میں پورے ہسپتال کی ماں ہوں۔ یہ لوگ بہت محبت کرتے ہیں۔ کھانا اپنے لیے لاتے ہیں تو مجھے بھی دیتے ہیں۔

مجھ سے کوئی گھر کا پتہ پوچھتے ہیں تو میں نہیں بتاتی کہ آپ کو تکلیف نہ ہو۔ میں کہتی ہوں کہ بس میرا گھر یہی ہے آپ سب میرے بچے ہو۔ ان بے چاروں کے والدین بھی تو ادھر نہیں۔ اگر یہ میرا خیال اپنوں کی طرح رکھ سکتے ہیں تو میں بھی بس ادھر ان کے ساتھ رہ کر ان کا خیال رکھوں گی۔ میں بس اب ادھر ہی رہوں گی گھر کبھی واپس نہیں آؤں گی۔ میں آپ کیوں پریشان کروں۔ اب شاید ہم کبھی نہ ملیں۔

آپ کی گھر سے نکالی گئی ماں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).