میٹھی شتابی


مجھے میٹھی شتابی کی رسم پسند ہے۔ گھر میں بچپن میں پونے والی اس تقریب کو میں نے ہمیشہ پسند کیا۔ مجھے دعا کرتی ہوئی ماں بڑی اچھی لگتی تھی۔ میں میٹھی شتابی کے رومانس سے کبھی بھی نہیں نکل سکی ہوں۔ میٹھی شتابی کی تقریب میں صرف عورتیں ہوتی ہیں۔ یہ بڑی پاکیزہ سی تقریب ہے جو روح میں جیسے رچ بس جاتی ہے۔ خواتین جمع ہوتی ہیں آپ کو پتہ نہیں ہوا، آپ بوہری نہیں ہیں اس میں سب سے پہلے سید شہداء کی دعا پڑھتے ہیں پھر حضرت بی بی فاطمہ کی دعا پڑھی جاتی ہے، پھر نعت منقبت میٹھی آواز میں پڑھی جاتی ہے۔ مجھے یہ پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں ہمیشہ سے اسے بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، پھر سیدنا مولا کی مدح پڑھی جاتی ہے۔ پھر کچھ وظائف پڑھے جاتے ہیں۔ تقریب ختم ہوتی ہے۔ بڑے سے تھال میں کھانا لگایا جاتا ہے پہلے نمک پھر گڑ اور روٹی اور اس کے بعد کھانا کھایا جاتا ہے۔

پھر عورتوں کے سامنے پلیٹ میں کالج، پھول عطر، مہندی، خوشبو پیش کی جاتی ہے۔ پھر ہم سب کاجل اور عطر لگاتے ہیں (مہندی خوشبو سے آراستہ کرتے ہیں ) اور خاتون خانہ چھوٹے چھوٹے تحفے مہمانوں کو دیتی ہے۔ میں اپنے اس ختنے کے درد کو اس روحانی تقریب میں بھول جاتی ہوں۔ سکون سا ملتا ہے وہاں۔ ایک اچھا احساس۔ پاکیزگی جیسے نور بن کر جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ مگر زینب کی موت سے پہلے والی میٹھی شتابی میرے لیے جرم بن کر رہ گئی ہے۔

فاطمہ کے گھر پر میٹھی شتابی تھی، وہاں میں بھی تھی۔ زینب بھی سید شہدا کی دعا کے بعد نعت رسول منقبت کے بعد، سیدنا مولا کی مدح اور وظائف کے بعد کھانے سے پہے زینب مجھے دوسرے چھوٹے کمرے میں لے گئی۔ وہ پریشان تھی۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے کہا۔ زرینہ وہ لوگ مجھے مار دیں گے، میری جان لے لیں گے۔ میں مرنا نہیں چاہتی ہوں میری چھوٹی بچی ہے مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ میری مدد کرو زرینہ۔ میری مدد کرو۔

مجھے اندازہ تو تھا کہ زینب کی زندگی مشکل میں ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تقریب ختم ہونے دو، اس کے بعد بات کرتے ہیں۔

مگر بات نہیں ہو سکی۔ مجھے سلیم لینے آگئے اور جلدی جلدی گھر چلی آئی تھی۔ یہ بھول ہی گئی کہ زینب کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ اس نے مجھ سے التجا کی تھی، مدد مانگی تھی۔ دوسرے دن دوپہر کو پتہ لگا کہ زینب جل گئی ہے۔ سول ہسپتال کے برن وارڈ میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس زندگی کی جنگ جس کے بچانے کے لیے اس نے فاطمہ کے گھر کی میٹھی شتابی کی تقریب میں مجھ سے مدد مانگی تھی اور میں نے اس کی التجا کو فراموش کردیا۔ یہ بوجھ میرے سینے کے اندر بہت اندر میرے دل کی گہرائیوں میں مجھے چرکے لگارہا ہے۔ میں بچا سکتی تھی اسے، ڈاکٹر صاحب بچا سکتی تھی۔ ”

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرلی جیسے سید شہداء کی دعا پڑھ رہی ہے۔ منقبت پڑھ رہی ہے سیدنا ملا کی مدح پڑھ رہی ہے۔

میرے پیر سن ہوگئے، جسم شل اور ذہن ساکت۔ میں رو بھی نہیں سکتا تھا۔ میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں کہنا چاہتا تھا مگر مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے کھڑی تھی۔ زرینہ کے ہاتھ پکڑے ہوئے کہہ رہی تھی مجھے بچالو، بچالو، بچالو اور مجھے مار دیں گے، وہ مجھے مار دیں گے۔

”مگر مجھے زندہ رہنا ہوگا ڈاکٹر اسی احساسِ جرم کے ساتھ زینب کی بیٹی کے لیے، اپنی بیٹیوں کے لیے اور اپنی بہنوں کی ان بیٹیوں کے لیے جن کے جسم زخمی ہیں، نامکمل بنا دیے گئے ہیں مگر وہ زندہ ہیں، ان کی روحیں ان کے جسم و جان میں اتنی ہی بھرپور ہیں، جتنی بھرپور ہونا چاہئیں۔ مجھے لڑنا ہوگا اپنی طاقت کے ساتھ، سلیم جیسے مردوں کی مدد سے، ایک طویل لڑائی، ایک آخری جنگ۔ “

مجھے اس کی آواز آئی تھی۔ ٹھہری ٹھہری، ایک عزم کے لیے ہوئے، ایک ارادہ تھا اس میں۔ ایک ایسا نعرہ جو مجھے سننا تھا۔ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اس کے سرخ و سفید چہرے پہ عزم کی بیکراں لہریں موجزن تھیں۔ مجھے یقین سا ہوگیا کہ صبح ضرور آئے گی۔ ایک ایسی میٹھی شتابی کے ساتھ جس کے اصول مختلف ہوں گے جس کی دعائیں مکمل ہوں گی جہاں ساری لڑکیاں اپنے مکمل جسموں کے ساتھ آزادی کا گیت گائیں گی بھرپور اور بے مثال۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6