جنسی ہراسانی مسئلہ ہے، سنگین مسئلہ!


جنسی ہراسانی ایک عام مسئلہ ہے، جس کا سامنا تقریباً ہر جنس کو کرنا پڑتا ہے۔ کبھی باس کے ہاتھوں، کبھی کولیگ کے ہاتھوں، کبھی رشتے دار کے ہاتھوں، کبھی ہمسائے کے ہاتھوں، کبھی کسی کے ہاتھوں۔ سند یہ ہے کہ سرویز بتاتے ہیں کہ اٹھانوے ( 98 ) فیصد لوگ جنسی ہرا سانی کا سامنا کرتے ہیں۔ خواہ مشرق ہو یا مغرب یہ مسئلہ ہر جگہ ہے۔ فرق یہ ہی ہے کہ مشرق میں جنسی ہرا سانی کے قوانین نہایت کمزور ہیں۔ جبکہ تہذیب یافتہ مغرب کے کچھ حصے میں مضبوط جنسی ہرا سانی کے نہایت مضبوط قوانین موجود ہیں۔

اس کے باوجود ایک مسئلہ مشترک ہے کہ دونوں ہی جگہوں پر اکثر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جنسی ہرا سانی کے شکار فرد کے لئے یہ بات کسی کو بتانا یا شکایت کرنا کہ وہ جنسی طور پر ہراساں ہوا ہے، خاصا مشکل یا تقریباً ناممکن سی بات ہے۔ آج انیس سال کا ہوتے ہوئے جب آج سے بارہ تیرہ سال پہلے کا وقت سوچتا ہوں کہ جب میں متعدد بار ہراساں ہوا تھا، تو خود سے سوال پوچھنے پر مجور ہو جاتا ہوں کہ میں اس وقت اپنے والد یا والدہ جنہوں نے مجھے بہت اعتماد دیا ہے، انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکا؟

میں کیوں تنہا اس اذیت میں مبتلا رہا کہ وہ آنٹی جب بھی آئیں تو کسی کونے کدھرے میں گھس جاؤں یا قریب رہتی اماں کے گھر چلا جاؤں یا وہ انکل جب بھی آئیں تو فوراً اماں کی اوٹ میں ہو جاؤں۔ تو جواب مجھے ایک ہی ملتا ہے کہ معاشرے کا دباؤ کچھ ایسا تھا کہ ہمت کبھی کر ہی نہیں سکا۔ جنسی معاملات تو شروع سے ہی اس طرح سے بتائے گئے تھے کہ اس بارے میں بات نہیں کرنی۔ شرم حیاء نجانے کتنے کفنوں تلے یہ لاش پڑی رہی۔ اعتماد تو بلاشبہ گھر والوں نے خوب دیا، ساتھ کھڑے ہوئے۔

مگر اس حوالے سے کبھی بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ یہ غلط ہے یا اگر کبھی اس صورت حال کا سامنا ہو تو کس کو بتانا ہے، کس کو شکایت کرنی ہے یا کیا کرنا ہے۔ کچھ علم تو تھا ہی نہیں۔ وہ تو تب بچپن تھا آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جب سب زَبانیں آزاد ہیں، جذبات و الفاظ پابند نہیں ہیں تو دوستوں کے ساتھ موجود ایک محفل میں جہاں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی۔ سب اس بحث میں پوری طاقت کے ساتھ مصروف تھے کہ جنسی ہراسانی ہوتی ہے، اس کے شکار لوگوں کو خاموش نہیں رہنا چاہیے، یہ ہونا چاہیے، فلاں ہونا چاہیے۔

میں خاموش بیٹھا گفتگو سُن رہا تھا۔ مجھ ایسے مضافات کے لوگ عموماً اس قسم کی محافل میں خاموش رہتے ہیں۔ جب جوش کچھ ٹھنڈا ہوا اور سب لوگ چائے کی چُسکیاں لینے کو تھمے تو سوال کیا کہ سب کے پوائنٹس بالکل ٹھیک ہیں اور بھیا بحث کے لئے تو پورے نمبر ہیں۔ یہ بتاؤ تم کبھی جنسی ہراسانی کا شکار ہوئے ہو، آغاز لڑکے سے کیا۔ لڑکا خاصا نوجوان اور داڑھی مونچھوں والا ہٹاکٹا تھا۔ سوال کرتے ہوئے ذہن میں مِتھ یہ ہی تھی کہ مرد بہادر ہوتا ہے۔

لیکن وہ بہادر خاموش رہا۔ پہلا خاموش رہا تو باقیوں نے روایت کے مطابق کیا کیا بولنا تھا۔ سب سے پوچھا مگر سب خاموش رہے۔ تو ہمت کر کے میں نے داستان کہنی شروع کی۔ آج اس لمحے کو سوچتا ہوں تو عجیب امبیریس سا فیل کرتا ہوں، بالکل ایک عجیب سا احساس جو شاید بیان نہیں ہو سکتا۔ لیکن بہرحال اس وقت کیفیت یہ ہی تھی کہ ذہن بالکل سلیٹ کی طرح خالی تھا۔ کسی بھی قسم کے احساس کے لئے ذہن میں بلاکر نصب تھا۔ فسانہ تمام ہوا تو سب کے چہروں پر میرے لئے ہمدردی تھی، جسے دیکھ کر خاصی کوفت ہوئی۔

اتنے میں ہی ایک سسکی کی آواز آئی تو پیچھے بیٹھی ایک طالبہ عبائے کے بازو سے آنکھیں رگڑ رہی تھیں اور کچھ کہے جا رہی تھیں۔ پانی کا گلاس اور چند حوصلے کے جملوں کے بعد انہوں نے بھی آپ بیتی سنائی۔ یوں ایک ایک کر کے سب بولتے گئے اور اپنے پر بیتے لمحے بتاتے گئے۔ گفتگو تمام ہوئی تو ڈومینینٹ ہوتے ہوئے سوال کیا کہ آج تک کبھی کسی کو یہ بات بتائی ہے پہلے؟ سب کا جواب نہ میں ہی تھا۔ مجھے لوگوں کی تعداد اس طرح سے تو یاد نہیں ہے کہ سب ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے ایک دوست یا سہیلی کو آتے ہوئے ساتھ کھینچتا لایا تھا۔

لیکن بیس بائیس لوگوں کی محفل میں سب کا جواب نہ ہی میں تھا۔ تخریبی ذہن میں پھر ایک سوال آیا تو پوچھ لیا کہ اگر اس کمرے سے باہر نکل کر یہ بات سب کو بتا دوں اور نام لے لے کر بتاؤں تو تم سب کا کیا ردِّعمل ہو گا۔ کچھ کے چہروں پر ایک انجانا سا خوف اور کچھ کے چہرے پر ناگواری سی رہی۔ کہنے لگے تمہیں اس لئے تھوڑی بتایا ہے کہ تم جا کر لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کرتے پھرو۔

احتراماً سوال کیا کہ بس یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ آپ لوگوں سے کہنے میں کیوں جھجھکتے ہیں۔ آپ کیوں ڈرتے ہیں کہنے سے؟ آپ کے ساتھ غلط ہوا ہے، آپ نے غلط تو نہیں کیا۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سب کے چہرے یہ ہی بتا رہے تھے کہ یہ معاشرتی اقدار و روایات کے ملبے تلے دفن لاشیں ہیں، جو حرکت کی نہ آس رکھتی ہیں نہ طاقت۔ میں بھی خود کو ان لاشوں میں ہی شمار کرتا ہوں تبھی تو روداد اس پبلک فورم پر لکھنے کی جرات نہیں کر سکا ہوں۔

جنسی ہراسانی پر بات کریں، بحث کریں۔ یہ سب ضرور کریں کہ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ اس پر بات کریں، ہر ایک فرد کی رائے بہت اہم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ عملی حصہ بھی ڈالیں کہ جب کوئی آپ کے ساتھ اپنی طاقت اکٹھی کر کے اپنے پر بیتی شئیر کرنے کے قابل ہو جائے تو خدارا اس کا مذاق مت اڑائیں نا ہی اُس کی کردار کُشی کریں۔ ساتھ ہی اپنے اردگرد موجود چھوٹے بچوں کے ساتھ اس کمیونیکیشن گیپ کو عبور کریں جس کی وجہ سے آپ اپنے پر گزری کسی کے ساتھ شئیر نہیں کر پائے تھے۔

اسے وہ اعتبار، وہ حوصلہ وہ اعتماد دیں کہ کل اگر اُس پر کچھ ایسا وقت آئے تو وہ کسی اور کو نا سہی آپ کو آ کر بتانے جتنا اعتماد تو ہو۔ یہ اعتماد بہت ضروری ہے۔ ورنہ یقین جانئیے آپ کی ڈرائینگ روم میں کی جانے والی بحثیں فضول ہیں درحقیقت ان کی کوئی وقعت سِرے سے نہیں ہے سوائے چند کھوکھلے الفاظ ہونے کے۔ قوانین اہم ہیں مگر اس کی روٹ کاز کو ختم کرنا زیادہ ضروری ہے کہ اگر ایک نَل سے پانی بہہ رہا ہے اور آپ وائپر تو مارتے رہیں لیکن نَل کو بند نہ کریں تو آپ کی ساری محنت تو رائیگاں ہی جائے گی۔

اپنے بچوں کے ایجوکیٹ کریں کہ ہراساں کرنا جُرم ہے ہراساں ہونا قطعاً جرم نہیں ہے اور اپنے بچوں کو ایسے ذہنی مریضوں سے دور رکھیں جو کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہراساں ہونے والے کا شخص پہنا لباس اس کے ہراساں ہونے کا اہم فیکٹر ہے، ایسا صرف اس صورت میں کریں کہ آپ چاہتے ہوں کہ آپ کا بچہ کل کو بڑا ہو کر درندہ مت بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).