رمضان المبارک میں عوام چینی فیڈ سے استفادہ کر سکتے ہیں


ملک میں رمضان شریف کی آمد آمد ہے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے پہلے ہی اشیا ءخردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کی گھنٹی بھی بجنے والی ہے۔ اس کے بعد اشیا ء ضرورت سونے کے مول بکنے لگیں گی۔

دال، چاول، بھنڈی توری، ٹینڈے اور پیاز کو تو اب غریب سونگھ کر گزارہ کریں گے اور پھل فروٹ تو سفید پوش لوگوں کے لیے بھی کھانا محال ہو جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی ریاست مدینہ میں صرف امیر ترین لوگ ہی پیٹ بھر کے کھا سکیں گے کیونکہ غریب لوگوں کی قبریں تو مہنگائی نے کھودنا شروع کر دی ہیں۔

خان صاحب بیرون ملک دورے کر کے غیر ملکی سربراہان سے ملاقاتوں میں امداد اور قرضوں کی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوتیں دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کرپشن اور غربت کی داستانیں سنا کر ایک نئی تھیوری کو جنم دینے کی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر شاید وزیر اعظم عمران کو ملکی سرمایہ کاروں، دکانداروں اور کاشتکاروں کی رو داد سنائی نہیں دی رہی ہے کہ ان کی ریاست مدینہ بننے سے پہلے ہی ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور تیزی سے بیروزگار ہو رہے ہیں اور دہاڑی دار بے یار و مددگار رل رہا ہے۔ ملک کا کسان بے حال ہے اور نوجوان بے روزگار ہے کیونکہ صرف کرپشن کا چورن بیچنے سے ہی ملک نہیں چلتے۔

ایک طرف تو آپ ملک میں اسلامی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے پاکستان کی مشرقی ایئر اسپیس بند ہونے کی وجہ سے ملکی ٹریول ایجنٹس کا کاروبار مندی کا شکار ہے۔

پی آئی اے روزانہ کے بنیاد پر لاکھوں روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کے حوالے سے یہ بیان آ رہے ہیں کہ وہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت امیروں کے کالی دہن کو سفید کرنے کے لیے ملکی تاریخ کی بڑی ایمنیسٹی اسکیم کا اجراء کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف عوام پر اربوں روپوں کے ٹیکسسز کا وزن ڈالا جا رہا ہے۔ اس مہنگائی کے نئے دور اور نئے پاکستان میں گوشت، دالیں، سبزیاں اور پھل فروٹ کھا کر پیٹ بھرنا عام آدمی کے لیے تو ناممکن ہے۔

اس لیے وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ چین کے حالیہ دورے میں چینی حکومت کو یہ استدعا کرتے کہ وہ چاہے ہمیں قرضے دے یا نہ دے مگر پاکستانی قوم کے لیے ایک سپر فیڈ ضرور بنائے، جسے کھا کرعوام پیٹ بھر سکیں کیونکہ مہنگائی کے اس سونامی میں غریب لوگ تو ضرور غرق ہو ں گے ساتھ ساتھ لاکھوں سفید پوش بھی شاید اپنی سفید پوشی کا برہم نہ رکھ پائیں۔ ایسا نہ ہو کہ وزیر اعظم عمران خان کی یہ ریاست مدینہ صرف اور صرف امیر سے امیر ترین تک ہی محدود رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).