لیہ میں ڈویژن کی تحریک چل پڑی


پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام سے لے کر بہاولپور صوبہ کے حوالے سے وعدوں اور دعووں کا سلسلہ جاری ہے لیکن عملی طورپر نوازلیگ، پیپلزپارٹی کی طرح تحریک انصاف بھی پنجاب میں نئے صوبوں کے وعدے اور دعوے کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، یوں لگ رہا ہے کہ اقتدار میں آتے ہی ان کے ہاتھ بھی وہی پیپلزپارٹی اور نوازلیگی قیادت والا پنجاب کی تقسیم کا سیلبس لگ گیا ہے، جس میں اس ایشو کو بیان بازی میں زندہ رکھنے اور اقتدار انجوائے کرنے کا سبق دیا گیا ہے اور وقت پاس کرنے کی نصحیت کرنے کی تاکید کے علاوہ نسخہ یہ بتایا گیا ہے کہ اگلے الیکشن ہوں گے تو دیکھیں گے کہ اب جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے حامیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے کیسے لگانا ہے؟

ابھی تک کی سیاسی صورتحال اس بات کی نشاہدی کر رہی ہے کہ اس بات پر ساری جماعتیں متفق ہیں کہ عوام کو پنجاب میں سرائیکی اور بہاولپور صوبہ دے کرتخت لہور سے جان چھڑانے کے لئے کوئی قانون سازی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ لٹکا ہوا ہے، ادھر ان صوبوں کے قیام میں ملتان اور بہاولپور کی قیادت اور عوام میں بھی اختلاف چل رہا ہے، وہ یہ ہے کہ بہاولپور والے بضد ہیں کہ وہ اپنے صوبہ کی بحالی چاہتے ہیں جبکہ ملتان کی قیادت بہاولپور کو اپنے صوبہ میں شامل کرنا چاہتی ہے۔

اس صورتحال میں ایک گولی یہ بھی کروائی جارہی ہے کہ ایسا کرتے ہیں کہ بہاولپور کو جنوبی پنجاب صوبہ کا دارالحکومت بنا لیتے ہیں، یا پھر جیسے طاہر بشیر چیمہ نے راقم الحروف کے ساتھ ایک انٹرویو میں لودھراں کو دارالحکومت بنانے کا کہا تھا مطلب ابھی تک سیاستدان غیر سنیجیدہ ہیں، جان بوجھ کر اتنے اہم ایشو پر بھی ایک نقطے پر اتفاق نہیں کررہے ہیں، ابھی بھی وہ چاہتے ہیں کہ لوگ لہور کی ٹھوکریں کھاتے رہیں اور وہ پارٹیاں اور نعرے بدل کر اقتدارکو انجوائے کرتے رہیں، ان کے ناقدین کا کہناہے کہ جان بوجھ کر عوام کو مختلف ایشوز میں تقسیم رکھا جا رہا ہے۔

بہرحال پیپلزپارٹٰی اور نوازلیگی قیادت کے سیلبس کو سامنے رکھ تحریک انصاف کے علاوہ وہ سیاستدان جوکہ اپنے تئیں چالاکی اور ہوشیاری سے عوام کو دھوکہ دے کر اپنے لہور کے اقتدار کو دوام دینے میں مصروف ہیں، وہ اپنی سیاسی ساکھ جنوبی پنجاب میں کھو رہے ہیں، اور وقت تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکل رہاہے۔ اس صورتحال میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ جولوگ اس وقت جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد ٹبر سمیت نیب کی نشانہ پر ہے، ان کی کرپشن کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ بھی ہوچکاہے اور اب مناسب وقت کا انتظارہے کہ کب ان کو نیب مہمان بناکر ان کی سرکاری خرچہ پر تواضع کا اہتمام کرتی ہے۔

اس بات کا سب کو اندازہ ہوچکاہے کہ یہ کردار پنجاب میں صوبوں کی سیاست کی آڑ میں اپنے دامان پر لگے کرپشن کو چھپانا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت میں عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ عوام کتنی دیرتک تاریخ پر تاریخ کو برداشت کریں گے۔ پنجاب کی اسمبلی نے جب نواز لیگی دور میں وفاق سے اس بات کا مطالبہ کردیاتھا کہ پنجاب کو تقسیم کرکے لہور کی جان چھڑائی تو پھر کیا امر معنی ہے کہ کبھی پنجاب کی تقسیم کے لئے ایک کمیٹی کبھی دوسری کمیٹی بنائی جاتی ہے، کبھی ایک دارالحکومت کا شوشہ چھوڑا جاتاہے کبھی لودھراں کو دارالحکومت بنانے کی گولی کروائی جاتی ہے، اتنی چھوٹی حرکتیں ان کو زیب نہیں دیتی ہیں۔

جنوبی پنجاب کے عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے اور عوام کو ذلیل کرنے میں کون سی تسکین حاصل کی جار ہی ہے۔ وہ ظفر صاحب نے اپنے ایک شعر میں ایسے کرداروں کو کیا خوب انداز میں لتاڑا ہے ”جھوٹ بولاہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر۔ آدمی کو صاحب کردار ہوناچاہیے“۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور خاص طورپر وہ لوگ جوکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر اکٹھے ہوئے تھے، اور پھر وعدوں سے عوام کو الیکشن میں ڈھیر کرکے اکثریت اپنے نام کی تھی، وہ اب وزراتوں اور دیگر مراعات کے پیچھے چپھنے کی بجائے اپنے وعدوں کو پورا کرنے اور ثابت کریں کہ وہ پیپلزپارٹی اورنواز لیگی سیلبس کی بجائے اپنے سیلبس اور وعدوں کے تحت پنجاب کو تقسیم کررہے ہیں۔ وگرنہ نیب کے قیدی کی حیثیت میں واویلا کرنے سے کچھ حاصل ہوگا۔

ادھرتھل میں ایک بڑی تبدیلی یوں دیکھنے کو ملی ہے کہ لیہ میں سیاستدان، وکلاء، تاجر، صحافی بالخصوص عوام ڈویژنل ہیڈکوارٹر کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر جدوجہد کی طرف بڑھ گئے ہیں۔ اس کی جدوجہد میں لیہ پریس کلب کے عہدیداروں کی طرف سے بڑا اقدام اس طرح کیاگیاہے کہ انہوں نے سارے شراکت داروں کو ایک نقط پر لانے میں اہم کردار اداکیاہے۔ ادھر لیہ بار کے عہدیداروں اور ارکان نے تخت لہور کو لیہ کے اہم ایشوکی طرف متوجہ کرنے کے لئے روزانہ ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیاہے، یوں وکلاء کی طرف سے اس اقدام کے بعد بڑے پیمانے پر لیہ کو ڈویژن بنانے کی تحریک کو مقبولیت مل رہی ہے۔

یہاں اس بات کو سب جانتے ہیں کہ تھل کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ کو پسماندہ رکھا جا رہا ہے، ان سات اضلاع جن کی کراچی کے برابر قومی اسمبلی کی نشتیں ہیں، وہاں پر ایک ڈویژن تک نہیں بنایا گیا ہے، ائرپورٹ، زرعی یونیورسٹی، انجئینرنگ یونیورسٹی تک نہیں ہے، ایک ٹیکنالوجی کالج نہیں ہے، ایک ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے، ایک انڈسٹری کا یونٹ نہیں ہے، ایک بہاولپور اورملتان کی طرح ریڈیو اسٹیشن کا سنٹر نہیں ہے، ایک کرکٹ یا ہاکی اسٹیڈیم نہیں ہے، وویمن یونیورسٹی سے لے کر میڈیکل کالج، ڈئینٹل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہے، ٹراما سنٹر نہیں ہے، موٹروے تو درکنار ایم ایم روڈ جو کہ پورے پاکستان کو لنک کرتا ہے اس کو دورویہ نہیں کیا گیا۔

مطلب تھل کو جنگل بناکر رکھا گیاہے، تھل کے لوگوں کوپاکستان کے قیام کے 71 سال بعد اس بات کی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے کہ ان کو ڈویژن کی حیثٰت دی جائے جبکہ ان سے جڑے علاقوں میں صوبوں کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ تھل کو ملتان اور بہاولپور اور لہور سے ترقی کے سفر میں کہیں دور پیچھے رکھاگیاہے۔ ادھر وزیراعلی عثمان بزدار تھل کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی یوں کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنی وزرات اعلی کو ڈیرہ غازی خان اور ملتان ضلع تک محدود کرلیاہے، سارے منصوبے وہیں جارہے ہیں۔

ان کوبھی پنجاب کے ماضی کے دیگر وزراء اعلی کی طرح تھل میں انسان نظرنہیں آرہے ہیں جوکہ بنیادی سہولتوں کے لئے قیام پاکستان سے انتظار کررہے ہیں، اب تو عثمان بزدار نے تھل کے ساتھ تفریق کی حد یوں کردی ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں حادثہ ہوتو پنجاب حکومت لواحقین کی امداد کرتی ہے لیکن تھل کے علاقہ سرائے مہاجر ضلع بھکر میں نویں جماعت کی سات طالبات کی قاتل روڈ پر ہلاکت جیسے واقعہ پر ایک طرف موصوف ان کے والدین کے پاس تعزیت کے لئے نہیں گئے ہیں تو دوسری طرف ان کے لواحقین کے لئے امداد کا اعلان بھی نہیں کیاہے۔

اسی طرح میانوالی، جس کو بزدار اپنے قائد کا شہر کہتے ہیں، وہاں پرسرائے مہاجر بھکر واقعہ کے بعد ایک باپ جوکہ اپنے بیٹا، بیٹی کو سکول چھوڑنے جارہاتھا، قاتل روڈ پر ایک ٹرالر نے تنیوں کو کچل ڈالا تھا لیکن پنجاب حکومت جوکہ عثمان بزدار چلارہے ہیں، ٹھس سے مس نہیں ہوئی ہے۔ ایم ایم روڈ کو موٹروے میں تبدیل کرنا تو درکنار یہاں پر حادثات میں مرنیوالے کو دو لفظ تعزیت کے بھی نہیں بولے جاتے ہیں۔ لیہ کے عوام تو ڈویژن کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں لیکن تھل جوکہ سات اضلاع پر پھیلاہوا ہے، وہاں پر ایک ڈویژنل ہیڈکوارٹر کافی نہیں ہے، لیہ کے بعد بھکر، جھنگ اور میانوالی کے عوام خاص طورپر وکلا، تاجروں اور صحافیوں کو متحرک ہونا ہوگا اورنئے اضلاع اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے لئے آواز اٹھانی ہوگی وگرنہ 71 سال کی طرح اب بھی حکومت اور ریاست کو تو خیال نہیں آئے گا کہ یہاں بھی لہور، ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد کی طرح انسان بستے ہیں اور ان کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).