نمل کا نیا لیڈرشپ چارج


اتنے عرصے سے لکھنے کی کوشش کررہی ہوں پر پتہ نہیں کیا بات ہے دن رات لکھنے پہ اکسانے والا دل بس ملامت کرتا رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں ان کے لئے تکلیف کا باعث ہوں جوریگولر نہیں لکھ رہی پہلے کی طرح۔ پتہ نہیں یہ ستائش ہے کہ آزمائش۔ مجھ سے واقعی لکھا نہیں جارہا۔ بقول شاعر!
اب کوئی معتبر آکر روئے۔

پچھلے سال میں نے اسے ایک چھوٹا سا پودا بولا تھا جس کا بیج تین سال پہلے لگایا گیا تھا۔ اس بیج پہ اک شخص کا انتہائی خلوص شامل تھا اتنا کہ امید سے پہلے ہی ایک سایہ دار پودا ہمارے سامنے موجود تھا۔ ایک ایسا شخص جس نے اتنے پیار سے ہم سب کو اکٹھاکیا کہ ہم نے سارا ٹائم ہنستے کھیلتے گزارا۔ کبھی پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم اتنا مشکل کام اتنی آسانی سے کر رہے ہیں۔ جہاں ہر کوئی کسی سے بات بھی محض اپنے ذاتی مفاد کے لئے کرتا ہے ایسے ماحول میں ایک فلاحی پراجیکٹ کو بغیر کسی ذاتی یا اجتماعی مفاد کے چلانا کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ تک نہیں ہونے دیا ہمیں۔

تین مہینے پاکستان گزار کے آئی تھی جب پتہ چلا کہ عمران خان کے تعلیمی پراجیکٹ کا فنڈ ریزنگ ایونٹ ہے۔ نام ہی ایسا تھا کہ دل خود بہ خود کھنچتا تھا اور پراجیکٹ بھی تعلیم کا وہ بھی میانوالی میں۔ اپنی تمام تر سستی کو بالائے طاق رکھ کے جانا پڑا۔ ان دنوں لکھنے کا شوق بھی شدید تھا اور نمل کے لئے تو دل کی گہرائی سے لکھا۔ اس سے پہلے علی عمران بھائی سے میری ملاقات شاید کسی انتہائی بورنگ ایونٹ پہ ہوچکی تھی جہاں انھوں نے بیٹھتے ہی مجھے بولا تھا کہ آپ اتنے غصے میں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں مجھے آپ سے ڈر لگ رہا تھا۔

ساتھ امبرین اختر بھی تھی۔ ہم کافی دیر بیٹھ کے بلاوجہ کی باتوں پہ ہنستے رہے اور یہ علی بھائی کا ہی کمال تھا کہ اتنی بور جگہ پہ ہمیں فل والیم میں ہنسنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہیں پہ نمل کے بارے میں بات ہوئی اور مجھے اپنے آرٹیکل کے لئے جو جو تفصیلات چاہیے تھیں میں نے علی بھائی سے لے لیں وہ بھی ہنسی ہنسی میں۔

نمل کے دوسرے ایونٹ کو اٹینڈ کرتے ہوئے میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس پراجیکٹ کو ضرور جوائن کروں گی۔ عمران خان کے پراجیکٹ میں آنے سے صاف مراد تھی کہ اس میں بے ایمانی کا کوئی ذرا سا بھی شبہ نہیں۔

پھر علی بھائی نے میسیج کیا کہ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ آپ نمل جوائین کریں گی۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ اگر ہر چیز ٹرانسپیرنٹ ہوگی تو میں کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ علی بھائی نے کہا میں آپ کو سٹیٹمنٹس ای میل کر دوں گا۔

شاعر کہتا ہے کہ
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہِ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے

میں نے کہا ای میل کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر اس کے بعد پتہ ہی نہیں چلا کہ میں نے نمل کو نیا نیا جوائن کیا تھا یا میں اس میں موجود اکثر لوگوں کو جانتی ہی نہیں تھی۔ ہمارے ٹیم ہیڈ نے ہم سب کو فرداً فرداً اس طرح آگے رکھا اور ذرا ذرا سی بات پہ ہم سے مشورہ کیا کہ ہر کوئی ٹیم کا اہم رول بنتا چلا گیا۔

بیچ میں یہ بتانا بھول ہی گئی کہ میں نے نمل پہ آرٹیکل لکھا جس پہ علی بھائی اتنے خوش تھے کہ میرا تعارف بس اسی آرٹیکل سے شروع ہوتاتھا۔ اس کے بعد بھی کئی آرٹیکل لکھے مگر وہ جو نمل سے اول اول کی محبت تھی اس کی سرشاری اور ہی تھی

نمل سے محبت آج بھی شدید نوعیت کی ہے۔ پچھلے سال میں نے اسے پودا لکھا تھا پر اس سال مجھے یہ اپنے بچوں جیسا لگنا شروع ہوگیا ہے۔ کچھ احباب کو شکایت بھی رہی کہ تم اس پراجیکٹ کو کچھ زیادہ ہی سیریس لیتی ہو میں اسی پہ خوش تھی کہ چلو کسی کو تو سیریس لیا۔ کسی کو میرے لکھے ہوئے مواد پہ آرٹیکل لکھنا تھا پچھلے سال۔ میں نے کہا کہ میرے فیس بک پروفائل پہ ساری شاعری کالمز، افسانے سب موجود ہیں۔ اس نے میرے پروفائل کا تفصیلی چکر لگایا اور مجھے کہا کہ آپ کے پروفائل پہ سوائے نمل کے کچھ بھی نہیں مل رہا مجھے۔

ان دنوں نمل کا تیسرا سالانہ فنڈریزر ہونے والا تھا اور ہم سب پورے زوراورپورے شور سے کام کر رہے تھے پبلک کاموں میں شور بہت ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو کوئی شکایت تو کبھی کسی کو۔ کبھی کمیونٹی کو ہمارے فنڈریزر کی ٹرانپیرنسی پہ شبہ تو کبھی عمران خان کے مخالفین کے بے بنیاد پراپیگنڈے۔ ایسے ٹائم میں یقیناً ہم سب کو غصہ آجاتا تھا اور ٹیم کے کئی ممبرز تو سیدھی سیدھی بحث کرکے جواب دینا چاہتے تھے پر اتنے مشتعل مواقع پہ ایک بندہ ہمیں بس یہ کہہ دیتا تھا کہ بحث نہیں کرنی، لڑنا نہیں ہے ہم جس مقصد کے لئے کام کررہے ہیں اسے بہت مثبت طریقے سے چلانا ہے۔ لوگوں کو خائف نہیں کرنا ساتھ لیکے چلنا ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے لوگ ہیں اور ان ہی کے تعاون اور کوششوں سے ہم نے نمل کو کامیابی سے ہم کنار کرنا ہے۔

ہم نے کمیونٹی کے بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈے کو ہر بار کھلے دل اور مثبت طریقے سے چیلنج کیا۔ اپنی سٹیٹمنٹس کو ٹی وی پروگرام پر کھول کھول کے بتایا۔ نمل کی ٹیم میں انتہائی ایماندار چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس۔ بیرسٹر اور تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے مستعد اور انتہائی پروفیشنل لوگ موجود ہیں جو ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں۔

پائی پائی سے یاد آیا کہ پچھلے سال ٹکٹیں بیچ بیچ کر اور باقی سارے کام کر کر کے جب اچھی خاصی مت وج چکی تھی تو 11 مئی کو ہمارا تیسرا سالانہ ایونٹ ہونے جارہا تھا۔ پروگرام سے چار گھنٹے پہلے پہنچنا تھا۔ میں ہمیشہ کی لاپرواہ میں نے کاؤنٹر پہ اپنا خریدا ہوا ٹکٹ جمع کرایا کلائی پہ بینڈ لگایا اور اندر کام کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ علی بھائی نے مجھے کہا کہ تمھارے ٹکٹ کے پیسے نہیں ملے مجھے۔ میں حیران کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔

کام کر کر کے اور ایونٹ کی ٹینشن میں شاید مجھ سے کچھ آگے پیچھے ہوگیا اتنے ٹکٹس سیل کیے تھے کہ کبھی پہلے نہیں کیے تھے۔ میں پریشان تھی میں نے اپنا ای میل چیک کیا پیسے ای میل کیے جا چکے تھے۔ معمہ یوں حل ہوا کہ میں نے بغیر پے شدہ ٹکٹ کاؤنٹر پہ دے دیا تھا غلطی سے اور paid ticket میرے پرس میں رہ گیا تھا۔ جس کا سیریل نمبر میچ نہیں ہورہا تھا۔ سو پیڈ نکال کے وہ علی بھائی کو دیا تو ان کو تسلی ہوئی۔ صرف 100 ڈالر کا ٹکٹ تھا۔ اور میں رونے والی ہوگئی تھی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے علی بھائی مجھ سے اتنے رش ٹائم میں 100 ڈالرز پہ بحث کریں گے۔ بھلا ہو یاسر اعوان کا۔ انھوں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں ٹائم ایسا ہے۔ مجھے رونا آرہا تھا کہ مجھے آج تک کسی کو یوں حساب دینے کی نوبت نہیں آئی تھی۔

اس بات کو اس لئے یہاں بیان کیا کہ جن لوگوں کو ہماری ٹرانسپینسی پہ ذرا سا بھی شک ہے اس واقعے کو پڑھ کے شاید ان کی تسلی ہوسکے کہ اتنی بھاگم دوڑ میں جو بندہ اپنے ٹیم ممبرز کو 100 ڈالر کی چھوٹ نہیں دے سکتا وہ فنڈز کی خرد برد ہونے دے سکتا ہے؟ یہ سوالیہ نشان ان کے لئے ہے جو آئے دن ہماری انتہائی ایمانداری سے اکٹھے کیے ہوئے ڈالر ڈالر کو جی ٹی اے کی کسی بھی کرپٹ فنڈرئزر سے جوڑ دیتے ہیں

نمل کو کچھ لوگ اپنے میڈیائی مفاد کے نقطہ نظر سے لے کے ٹیم میں داخل ہوئے۔ اگر کسی کا بھلا نمل کا نام جڑنے سے ہوتا ہے تو کیوں نہ ہو؟ آخر کو یہ فلاحی پراجیکٹ ہے اور خلوص اور ایمانداری کے احاطے میں رہتے ہوئے اگر کسی کے بزنس کا بھلا ہوتا ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ شاید نمل کو کاروبار ہی سمجھنا شروع ہوگئے تھے۔ ان کو باہر نکالنا بھی ایک کام تھا مگر باہر نکال دیا گیا۔

علی بھائی نے مجھے کہا تھا کہ آپ بولا کرو۔ بولتی کیوں نہیں ہو۔ اگر کوئی شکایت ہو یا پھر کوئی بھی سجیشن ہو۔ بالکل بھائیوں کی طرح نہ صرف سنتے تھے بلکہ بات مانتے بھی تھے ہمیشہ۔

ایونٹ سے پہلے ان کا یہ حال تھا کہ کیا شام کیا ویکنڈ ہر روز وہ دن رات صرف نمل کے لئے وقف تھے۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا اور ایک بندہ انتھک محنت کررہا ہوتا تھا۔ ایونٹ بہت شاندار رہا پاکستان سے عمران خان کی بہن علیمہ خان آئیں، نعیم بخاری نہں پہنچ سکے، فخر عالم اور علیمہ خان نے کینڈا کے مختلف صوبوں میں پروگرامز کیے دولاکھ تیس ہزار ڈالرز پورے کینیڈا سے اکٹھے کیے گئے۔

فنڈریزنگ کا عجیب فیشن ہے جی ٹی اے میں کہ لوگ وعدہ کردیتے ہیں کہ اتنی رقم دیں گے بعد میں منکر ہوجاتے ہیں۔ محض اپنے سماجی اور سیاسی مفاد کی خاطر سٹیج پہ چڑھ کے جھوٹ بولتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ تصویریں کھنچواتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں۔ ایک جگہ تو مجھے خود جانا پڑا عمران خان کا سائن کیا ہوا گیند بلا واپس لینے۔ مجھے اس فیملی سے ایسے رویے کی امید نہیں تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں کتنے غصے میں گئی تھی کیونکہ ہمارے اپنے اندر بھی لوگ ہر بات کی اچھی کھال اتارنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

بہت سے مسائل ہوئے۔ کبھی کوئی ناراض تو کسی کو کوئی ایشو کیونکہ ٹیم کے سب ممبرز ایک ہی کمیونٹی میں ہر روز ملنے والے لوگ ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے شکایات سمیت لیکے تین سال تک چلنا مشکل کام تھا مگر ہوگیا۔ محنت بہت لگی۔ سب نے کی۔ کچھ نے کم کی۔ کچھ نے زیادہ کی۔ اور سب سے زیادہ ٹیم ہیڈ نے کی۔

تفصیلات تو اتنی زیادہ ہیں کہ لکھنے لگوں تو شاید بہت وقت لگے۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ قسطوں میں لکھا تو شاید لوگ پڑھ بھی نہ پائیں انہماک سے۔

وسیم درانی نے پچھلے سال ہر کام کو آگے بڑھ کر اپنے ذمے لیا۔ ممبر شپ ویب سائیٹ بنائی پاکستان ٹیم سے مل کے۔ اور ہر کام میں جہاں ہم نے سستی دکھائی انھوں نے آگے بڑھ کے خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ سو تین سال بعد لیڈرشپ کا چارج ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان سے اپروول لیا گیا۔ کینیڈا کی کور ٹیم سے مشاورت کے بعد چارج باقاعدہ طور پر اٹھائس مارچ کو کاروان کباب میں سب ممبرز کے سامنے ان کے نام کیا گیا

میں نے پچھلے سال نمل کو ایک پودا کہا تھا اس سال اٹیچمنٹ بڑھ چکی ہے دوسال سے میں بھی اس کی پرورش میں شامل ہوں۔ علی بھائی نے ایک بار پھر ہم سب کا تعارف کروایا۔ مجھے ایک وقت یاد آگیا جب ولیمے سے اگلے دن احسن مجھے دوپہر کو لینے پہنچ گئے تھے میری امی کا دل تھا کہ میں ان کے پاس رہوں۔ احسن ایک صوفے پہ بیٹھے ہوئے تھے جب میں کمرے میں آئی میں ایک سائیڈ پہ بیٹھ گئی۔ ابو نے مجھے کہا کہ احسن کے ساتھ بیٹھو۔ اور ایسی بہت سے ہدایات۔ جب ہم وہاں سے نکل رہے تھے تو ابو نے ہم دونوں کو روکا اور مجھے کہا کہ اب سے تمھارا شوہر تمھارا سب کچھ ہے۔ تم نے زندگی کا ہر قدم اس کی اجازت سے اٹھانا ہے۔ اب سے میرا چارج اس کے حوالے۔ ابو روپڑے تھے اور میں بھی۔ صرف ایک بندہ خوش تھا۔

کل علی بھائی کو نمل کا چارج وسیم درانی کے حوالے کرتے ہوئے پتہ نہیں کیوں مجھے ابو اور وہ وقت یاد آگیا۔ کل لگ رہا تھا کہ نمل ایک بچہ ہے جس کو تین سال تک علی بھائی اپنے بچوں کی طرح پالتے رہے تھے اور اتنا تناور کرکے اسے نئے ہیڈ کے حوالے کردیا تھا۔ ہم سب کا وہی مقام تھا جو پہلے تھا صرف ہیڈ ہی بدلا تھا ہم تو ادھر ہی تھے لیکن عجیب سے جذبات تھے۔ پتہ نہیں کیوں؟

یہ صرف ہماری محبت ہے سچائی اور لگن ہے اور ایک دوسرے کی عزت اور جذبات کا ادراک ہے کہ ایسا محسوس ہوا۔ نئے ہیڈ یقیناً بہت خلوص سے نمل کی نگہداشت کریں گے اور اگست میں ہمارا ممبرشپ ایونٹ ایک اور شاندار سال رقم کرے گا۔

لوگ کہتے ہیں کہ میں لکھتی نہیں رلاتی ہوں اب تو مجھے بھی یہی لگنے لگا ہے۔ اسی لئے شاید کم لکھ رہی ہوں آج کل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).