سیلاب تو آتے رہتے ہیں، سیلاب کا کیا ہے! (مکمل کالم)


البرٹ ایلن بارلیٹ ایک امریکی سائنس دان تھا، اُس کا ماننا تھا کہ اِس زمین پر انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اُس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اِس بات کو اُس نےبے حد دلچسپ تجربے کی مدد سے یوں بیان کیا کہ اگر آپ کسی بیکر میں بیکٹیریا ڈالیں اور وہ ہر ایک منٹ کے بعد دو میں تقسیم ہوجائے، یعنی پہلے منٹ میں ایک سے دو، دوسرے منٹ میں دو سے چار، تیسرے منٹ میں چار سے آٹھ اور یوں یہ عمل جاری رہے تو کتنی دیر میں بیکر بیکٹیریا سے بھر جائے گا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر یہ کام گیارہ بجے شروع ہوگا تو ایک گھنٹے کےبعد بیکر میں بیکٹیریا کے لیے جگہ نہیں بچے گی یعنی بارہ بجے بیکر بھر جائے گا۔ اِس تجربے میں حیران کُن بات یہ نہیں ہےکہ بیکر ایک گھنٹے میں بھر جائے گا، حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف ایک منٹ پہلے تک بیکر نصف بھرا ہوا ہوگا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پہلے تک بیکرصرف تین فیصد تک بھرا ہوا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اُس بیکر کو زمین اور بیکٹیریا کو انسان تصور کرلیں تو کس لمحے ہمیں ادراک ہوگا کہ خطرہ ہمارے سر پر آن پہنچا ہے ؟ ظاہر ہے کہ پانچ منٹ پہلے تک بھی ہم یہ نہیں جان پائیں گے کہ زمین کو آبادی یا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی خطرہ ہے، کیونکہ پانچ منٹ پہلے تک تو ’بیکر‘ صرف تین فیصد تک بھرا ہو گا اور بارہ بجنے سے ایک منٹ پہلے تک بھی زمین پر نصف سے زیادہ جگہ خالی ہوگی، تو کیا کوئی اوسط درجے کا انسان اِس خطرے کا اندازہ کر پائے گاکہ یہ زمین اگلے ایک منٹ میں ختم ہوجائے گی ؟ یقینا ًنہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی، یہ دونوں خطرات ایسے ہی ہیں جن کا ہمیں اندازہ نہیں ہوپارہا۔ زمین پر انسان کی آبادی پہلے دن سے ہی لاکھوں کروڑوں میں نہیں تھی، پہلے یہ فقط چند ہزارتھی، اسے پہلے ایک ارب تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ سال لگے، دو راب تک پہنچنے کے لیے صرف سو سال لگے، اگلے پچاس برس میں یہ چار ارب ہو گئی، اور اِس وقت یہ آبادی آٹھ ارب کے قریب ہے۔ اگلے چالیس برس میں زمین پر انسانوں کی تعداد بتیس ارب ہوجائے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگریہ زمین آٹھ ارب انسانوں کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی تو بتیس ارب انسانوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟

آج سے پانچ سال پہلے تک پاکستان میں کوئی ماحولیاتی آلودگی کا لفظ تک نہیں جانتا تھا، اور دس سال پہلے تو شاید موسمیاتی تبدیلی کی وزارت بھی نہیں تھی، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ حالیہ سیلاب سے پہلے ہمارے اردو اخبارات نے اِس موضوع پر کوئی کالم یا اداریہ شائع کیا ہو یا کسی ٹاک شو میں کوئی پروگرام ہوا ہو۔ آج بھی سوائے حامد میر یا اکا دکا صحافیوں کے، کوئی اِس موضوع پر نہ قلم اٹھاتا ہے اور نہ پروگرام کرتا ہے۔ سیلاب پر ہمارے اینکرز نے تب پروگرام کیے جب پانی سر سے گذر گیا، وگرنہ اس سے پہلے ہمارے پروگراموں میں سوائے گھسی پٹی سیاست کے کچھ بھی زیر بحث نہیں آتا تھا۔ اس سیلاب کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کوکچھ اندازہ ہواہےکہ موسمیاتی تبدیلی سچ مچ کوئی چیز ہے، لیکن یہ بھی محض میری خوش فہمی ہے، مغربی ممالک کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اِس خطرے کا ادراک نہیں کرپائے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم ابھی تک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حالتِ انکار میں ہیں، ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر زمین پر درجہ حرارت ایک آدھ ڈگری بڑھ بھی گیا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی، ہم ائیر کنڈیشنر کا تھرمو سٹیٹ بیس سے اٹھارہ کردیں گے اور مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ اسی قسم کی سوچ مغربی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں آج کل بڑے فخرسے خود کو ’ماحول دوست‘ لکھ رہی ہیں۔ یہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے کیونکہ سارا سال یہ کمپنیاں کروڑوں اربوں صارفین کے لیے رنگ برنگی مصنوعات بناتی ہیں جن میں کپڑے، جوتے، میک اپ، موبائل فون، فرنیچر، الیکٹرونکس وغیرہ شامل ہے، یہ مصنوعات زمین کا خون نچوڑ کر تیار کی جاتی ہیں، پہلے یہ کام چار ارب انسانوں کے لیے ہوتا تھا اب آٹھ ارب لوگوں کے لیے ہوتا ہے، اور اِن میں سے بھی اربن مڈل اور اپر کلاس نے ایک جوڑا تین سے چار مرتبہ سے زیادہ نہیں پہننا ہوتا اور کوئی چیز سال چھ مہینےسے زیادہ استعمال نہیں کرنی ہوتی، لہذا یہ کمپنیاں اپنے مصنوعات پر ’We are Green‘ لکھ کر ہم جیسے صارفین کو مطمئن کردیتی ہیں جس کا حقیقت میں فقط یہ مطلب ہوتا ہےکہ جس ٹرک میں اِن کا مال جاتا ہے وہ پٹرول کی بجائے بجلی سے چلتا ہے، یوں یہ کمپنیاں اپنا دامن بھی صاف کرلیتی ہیں اور ہمارا ضمیر بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہم موحولیاتی آلودگی میں حصہ دار نہیں بن رہے۔ یہ تمام حالتِ انکار کی مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو تباہی کے اِس دہانے پر لانےمیں ترقی یافتہ ممالک کی یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں جبکہ خمیازہ پاکستان کے غریب عوام بھگت رہے ہیں۔

لیکن یہ بات پاکستان جیسے غریب ممالک تک نہیں رکے گی، امریکہ اور یورپ بھی موسمیاتی تبدیلی کے عذاب سے نہیں بچ پائیں گےاور یہ سب کچھ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے۔ کنیڈا میں جب دوچار دن کے لیےبرف کا طوفان آتا ہے تو معمولات زندگی متاثر ضرور ہوتے ہیں مگر بہت جلد مقامی انتظامیہ برق رفتاری سے کام کرکے حالات معمول پر لے آتی ہے۔ لیکن فرض کریں کہ یہ طوفان مسلسل ایک ماہ تک جاری رہے تو کیا ہوگا؟ پھر پوری کنیڈین حکومت مل کر بھی اِس کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔ یہی حال امریکہ کا ہے۔ امریکہ میں بھی کسی طوفان کی صورت میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز اور اُن کی مرمت اور بحالی کا کام بہت تیزی سے مکمل کر لیا جاتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا محکمہ موسمیات گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کی مدد سے حکومت کو متنبہ کر دیتا ہے کہ اِس مرتبہ موسم کی وجہ سے کہاں کہاں خرابی پیدا ہوگی، مگر یہ اعداد و شمار گزرے ہوئے برسوں میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں، اِس مرتبہ امریکہ کے کچھ حصوں میں ٹرانسمیشن لائنوں کی بحالی میں معمول سے زیادہ وقت لگا اور اِس کی وجہ موسم کی شدت تھی، محکمہ موسمیات نے جو اندازہ لگایا تھا، موسم کی خرابی اُس سے کہیں زیادہ نکلی، اگلے چند برسوں میں یہ صورتحال بدتر ہوتی چلی جائے گی، اُس وقت امریکہ میں کیا حال ہوگا، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ اسی طرح یورپ میں امسال گرمی کی جو لہر آئی ہے وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی، کرونا وائرس بھی موسمیاتی تبدیلی کا ہی شاخسانہ تھا۔

اگر موسمیاتی تبدیلی کا یہی حال رہا اور ترقی یافتہ دنیا نے اِس بارے میں کوئی تدبیر نہ کی تو اگلے آٹھ سے دس سال میں ہم مزید گلیشئیر پگھلتے ہوئے دیکھیں گے، فصلوں کی تباہی سے دس کروڑ انسان انتہائی غربت کا شکار ہوجائیں گے، سیلاب زدہ ممالک سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گےاورسطح سمندر بلند ہوتی چلی جائے گی جس سے بے حدخطرناک طوفان آئیں گے۔ سن 2050 تک دنیا کی دو ارب سے زائد آبادی ساٹھ ڈگری درجہ حرارت کی گرمی میں رہنے پر مجبور ہوجائے گی اور یہ گرمی تقریباً سارا سال ہی برداشت کرنی پڑے گی، دنیا میں ہر انسان، کسی بیماری سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے پھیپھڑوں کو سموگ سے بچانے کے لیے، ماسک پہننے پر مجبور ہوجائے گا، شمال مشرقی امریکہ میں ہر برس پچیس سیلاب آئیں گے جہاں 2020 میں صرف ایک سیلاب آیا تھا، پانی اورخوراک کی کمی اور شدید موسم کی وجہ سے چودہ کروڑ لوگ در بدر ہوجائیں گے۔ سن 2100 تک دنیا کا اوسط درجہ حرارت چار ڈگری تک بڑھ جائے گا (واضح رہے کہ یہ صرف ڈیڑھ ڈگری بڑھا تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی)، امریکی ریاست فلوریڈا کا نشان مٹ جائے گا، حشرات الارض ختم ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ ہوجائیں گی، خشک سالی سے چالیس فیصد کرہ ارض متاثر ہو چکی ہوگی، امریکہ کے جنگلات میں بھی ویسے ہی آگ لگا کرے گی جیسی ہمارے ملک میں اِس برس لگی تھی، جنوبی سپین اور پرتگال صحرا بن جائیں گے جہاں پانی اور خوراک کی شدید کمی ہو گی۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگرہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں، موسمیاتی تبدیلی ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑے عہدے پر کس کی تعیناتی ہوگی، یہ تعیناتی کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟ ٹاک شوز اِن باتوں پر ہونے چاہئیں۔ سیلاب تو آتے رہتے ہیں، سیلاب کا کیا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments