حامد میر اور شاہ نعمت ﷲ ولی کی پیش گوئیاں


تیسرے قصیدہ کا آغاز مغلوں کے ہندوستان پر حکومت اور پھر نصاریٰ کے حکومت میں آنے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ قصیدہ ایک چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان میں بیسویں صدی میں پیش آنے والے تمام واقعات کو کسی نا کسی طرح قصیدہ کا حصہ بنایا گیا ہے اور واقعات کی تاریخی ترتیب کا بالکل بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس قصیدہ میں جا بجا حقائق کی غلطیاں ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر:

چترال، نانگا پربت، یاسین، ملک گلگت

پس ملک ھای تبت گیر نار جنگ آنہ

(چترال، نانگا پربت، گلگت اور تبت کے پاس کا علاقہ میدان جنگ بنے گا)

یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کی “نانگا پربت” انیسویں صدی کے وسط تک، غالبا 1854 میں دریافت ہوا تھا اور اس سے پہلے دنیا اس عظیم پہاڑ کے وجود سے بے خبر تھی۔ مقامی لوگ اس پہاڑ کو دیامر یا دیومیر “عظیم پہاڑ” کے نام سے جانتے تھے۔ اب کیسے 5 یا 7 صدی قبل اس قصیدہ میں “نانگا پربت” کا نام استعمال ہوا، یہ آج تک ایک معمہ ہے۔

ان قصائد کے متن پر غور و خوض سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے قصیدہ کہ برعکس دوسرے اور تیسرے قصیدہ کا شاہ نعمت ﷲ ولی کے دیوان میں کوئی ذکر نہیں، بلکہ کسی بھی ہم عصر فارسی شاعر کہ کسی بھی تخلیقی کام میں ان کا کہیں بھی کوئی اثر نہیں۔ ہندوستان کا ذکر پہلے قصیدہ میں ایک شعر میں سرسری سا ہے، جب کہ دوسرے اور تیسرے قصیدہ میں ساری توجہ دہلی، پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کے حالت زار پر ہے۔ بنگال اور کیرالہ کے مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں!

اب اس نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ یہ قصائد کیسے مسلمانان بر صغیر کی سیاسی گفتگو میں رائج ہوئے۔ ان قصائد کی شہرت، شاہ اسماعیل دہلوی سے منصوب کتاب “الاربعین فی احوال المھدیین” کی 1851 میں اشاعت سے ہوئی۔ ناشر نے شاہ اسماعیل کی کتاب کہ اختتام پر اس نوٹ کے ساتھ پہلے قصیدہ کو چھاپا:

“نعمت ﷲ ولی جو کہ ایک صاحب باطن شخص ہیں اور ہندوستان کے اولیائے کامل میں سے ایک کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ دہلی کے اطراف میں پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ، ان کے اشعار کے مطابق جو ہندوستان میں کافی مقبول ہیں، 560 ہجری قمری (1165 عیسوی) ہے۔ چونکہ ان اشعار میں مہدی موعود کے خصائص بیان کیے گئے ہیں اس لیے ان اشعار کو یہاں پر زیور طبع سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ 25 محرم 1268 ہجری کو یہ تحریر لکھی گئی”

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ نعمت ﷲ ولی کے پہلے قصیدہ سے ہندوستان کی عوام واقف تو ضرور تھی مگر اس کے خالق سے چنداں آشنائی نہیں تھی۔ اس لیے ان اشعار کو کسی دہلی کے نعمت ﷲ ولی سے جوڑا گیا جس کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

دوسرے قصیدہ کا پہلا ذکر پہلی دفعہ 1866 میں ایک برطانوی مجسٹریٹ T.E Ravenshaw کے ایک مقدمہ سے متعلق ان کے تاثرات میں آیا۔ ریونشا اس بارے میں لکھتے ہیں:

“یہ ایک قصیدہ ہے جو مولوی نعمت ﷲ نے لکھا ہے جس میں تاج برطانیہ کے 1279 ہجری (1853) میں سقوط کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ برطانوی حکومت گرنے کی تاریخ متعدد بار تبدیل کی جاتی رہی ہے تاکہ اس پیش گوئی پر عوام کا ایمان برقرار رہے”

ریونشا کے ذکر کردہ دوسرے قصیدہ کے 35 اشعار WW Hunter نے اپنی کتاب “The Indian Musalman” میں بھی نقل کیے ہیں۔ لیکن دونوں انگریز مصنفین ان قصیدوں کے شاعر کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق یہ دونوں قصائد جعلی تھے، جب کہ حقیقت کے مطابق پہلا قصیدہ واقعی شاہ نعمت ﷲ ولی کا ہے۔

سر سید احمد خان ان قصائد کے تنقیدی جائزے میں لکھتے ہیں کہ اس کلام کی تاریخی و حوالہ جاتی حیثیت مشکوک ہے اور یہ قصائد ایک کشمیری درویش ولی نعمت ﷲ نے لکھے جن کی تاریخ وفات ان کے مطابق 1028 ہجری (1618) ہے۔ اپنے متقدمین کی طرح سر سید احمد خان بھی اس مبینہ “ولی نعمت ﷲ” کے بارے میں کسی بھی قسم کے مستند معلومات دینے سے قاصر ہیں۔ یہاں اضافہ کرتا چلوں کہ کشمیر کے کسی بھی تاریخی حوالے میں ان ولی نعمت ﷲ کا کوئی نام و نشان نہیں۔

اب آتے ہیں تیسرے قصیدہ کی طرف۔ تیسرا قصیدہ پہلی دفعہ خواجہ حسن نظامی کی کتاب “کتاب الامر” مطبوعہ 1913 میں منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اس قصیدہ کے 40 اشعار نقل کیے۔ خواجہ حسن نظامی کے کتاب کے بعد اس تیسرے قصیدہ کے اشعار ہر گزرتے ایڈیشن کے ساتھ بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ کچھ ایڈیشن میں یہ تعداد 99 اشعار تک پہنچ گئی۔ گزرتے سالوں کے ساتھ، اہم وقعات کے بارے میں اشعار اس قصیدہ کا حصہ بنتے گئے۔ خصوصا قیام پاکستان کے بعد تیسرے قصیدہ میں جعلی اشعار کے ایک ہجوم کا اضافہ کیا گیا۔ قمر اسلام پوری اس بارے میں لکھتے ہیں:

“متحدہ ہندوستان میں قریبا ایک صدی کے دوران شاہ کے نام پر تقریبا 80 اشعار کی جعلسازی کی گئی، لیکن پاکستان میں آزادی کے صرف 25 سالوں میں 58 جعلی اشعار گھڑے گئے”

بالخصوص 71 کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ان پیش گوئیوں کا ذکر زور وشور سے کیا گیا، متعدد ناشرین نے ان جعلی اشعار کے ایڈیشنز کی قطار لگا دی اور پاکستانی مسلمانوں کا یہ ایک محبوب مشغلہ بن کر رہ گیا۔

حاصل کلام یہ کہ شاہ نعمت ﷲ ولی سے منسوب ان قصائد کی، سوائے ہہلے قصیدہ کے (جو ان کے دیوان کا حصہ ہے)، کوئی تاریخی وقعت نہیں۔ لیکن مسلمانان بر صغیر، خصوصا پاکستان کی عوام، اس لیے ان سے متاثر ہیں کیونکہ ہم بحیثیت قوم سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے عادی ہیں۔ پیش گوئیاں، سازشی مفروضات کی ہی طرح ہوتی ہیں، یہ ان پر یقین کرنے والوں کو مستقبل کیلیے امید فراہم کرتی ہیں، ان پر آئے ہوئے مشکل حالات اور مشکل وقت کو گزارنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔

مجھے بہت افسوس ہوتا ہے، جب بزعم خود جید اور دانشور صحافی بغیر کسی تحقیق اور جستجو کے ان جھوٹ کے پلندوں کو حقائق بنا کر پیش کرتے ہیں۔ خدارا خود بھی تحقیق اور غوروفکر کی عادت ڈالیں اور اپنے قارئین کو بھی۔ اسی میں ہمارے قوم کی کامیابی ہے۔

Reference: Prophecies in South Asian Muslim Political Discourse by CM Naim


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2