پشتون تحفظ موومنٹ کو ریاست کی مسیحائی درکار ہے، جراحی نہیں


پاکستان نے وجود میں آنے کے بعد جن دو چیزوں میں بے پناہ ترقی کی ہے وہ غداری اور کفر کی اسناد بنانا اور انہیں تقسیم کرنا ہے۔ 50 کی دہائی سے غدار اور کافر کافر کا یہ کھیل رچایا گیا اور آج اکیسویں صدی کی دوسرے دہائی کے اختتام کے قریب بھی یہ کھیل اسی طرح جاری و ساری ہے۔ پہلے باچا خان، حسین شہید سہروردی، فاطمہ جناح اور شیخ مجیب غدار قرار پائے اور اس کے بعد ذوالفقار بھٹو، اکبربگٹی بینظیر بھٹو اور نواز شریف وغیرہ کی باری آئی۔

اس دوران ملک میں آئین کو روندنے والے باوردی آمر پھر بھی محب وطن ہی ٹھہرے۔ ہم نے جس بھاری مقدار میں غدار اور کافر اس ملک میں تیار کیے ہیں اس کو دیکھنے کے بعد محسوس یوں ہوتا ہے کہ شاید محب وطن اور سچے مسلمان محض وہی ہیں جو ڈھور ڈنگروں کی مانند ان قوتوں کے اشاروں پر ہانکے جانے کو زندگی کا حاصل گردانتے ہیں جو وطن عزیز میں غداری اور کفر کی اسناد بانٹتی اور تقسیم کرتی ہیں۔

حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی تازہ پریس کانفرنس جس میں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو غدار قرار دیتے ہوئے ان پر را اور این ڈی ایس سے پیسے لینے کے الزامات لگائے گئے اس کو دیکھ کر چشم تماشا کو ہرگز بھی حیرت نہیں ہوئی۔ بلکہ تعجب اس بات پر ہوا کہ مہربانوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کو غدار قرار دینے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا لہجہ تلخ ہے اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پشتون نوجوانوں پر مشتمل اس تحریک نے براہ راست ریاستی اداروں کے خلاف آواز بلند کی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کے لہجے میں تلخی پیدا کرنے والے عوامل کیا ہیں اور ریاست نے ان نوجوانوں کے درد کے درماں کا کیا سامان پیدا کیا ہے؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ یہاں چلنے والی بیشتر ایسٹیبلیشمنٹ مخالف تحریکیں بھی ”کنٹرولڈ“ رہی ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ چونکہ ”کنٹرولڈ“ نہیں ہے اس لئے اس تحریک میں سب سے زیادہ غم و غصہ مقتدر قوتوں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ اس تحریک میں شامل بیشتر نوجوان بچوں نے نائن الیون کے حالات کے پس منظر میں ہوش سنبھالا اور افغانستان جنگ اور کبھی اپنے وطن میں عسکری آپریشنوں کے نتیجے میں اپنے علاقوں میں تباہی دیکھی۔ اس لئے ان کے لہجے کی کڑواہٹ ایک فطری عمل ہے لیکن ریاست کے لہجے میں غصہ اور دھمکی کا عنصر ایک قابل تشویش امر ہے۔

منظور پشتین جو کہ پی ٹی ایم کا چہرہ ہے آپ اسے ولن بھی سمجھ سکتے ہیں اور ہیرو بھی کیونکہ ہمارے ہاں ہر کوئی اپنی اپنی پسند کے نظریوں پر یقین کرنا پسند کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ منظور پشتین اور اس کی تحریک کے مکمل میڈیا بلیک آوٹ کے باوجود اور مین اسٹریم میڈیا پر ان کے خلاف یک طرفہ بیانیہ چلانے کے باوجود منظور پشتین نہ صرف اس تحریک کو بام عروج تک لانے میں کامیاب ہو گیا بلکہ اس نے پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے بیشتر ایسے سوالات بھی کھڑے کر دیے جو اکثر افراد کسی مصلحت یا خوف کے باعث لبوں پر نہیں لا پاتے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے 400 سے زائد افراد کا ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کا مطالبہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور انہیں عدالتوں میں شفاف مقدمات کی سہولت دینا کون سے آئین کی خلاف ورزی ہے اس بارے میں روشنی شاید وہی ڈال سکتے ہیں جن کے پاس غداری اور کفر کے ڈھالیں موجود ہیں۔ اسی طرح قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ گڈ طالبان – بیڈ طالبان کی پالیسی ختم کرنے کے مطالبات اور اداروں کو آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا پابند رہنے کے مطالبات بھی کسی اعتبار سے آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتے۔

ہاں جو نعرے پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے لگائے جاتے ہیں ان پر اعتراض ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن کیا یہ ریاست کا فرض نہیں ہے کہ ان نعروں کے پیچھے چھپے غم و غصے کو کم کرنے کے لئے پشتون تحفظ موومنٹ سے سیاسی مذاکرات کا آغاز کرے اور ان مذاکرات کی باگ ڈور پارلیمان کے پاس ہو۔ پی ٹی ایم پشتون بیلٹ کے نوجوانوں کی ایک مقبول جماعت ہے اور اس پر غداری اور غیر ملکی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے پیسے لینے کے سنگین الزامات عائد کرنے سے صرف اور صرف پشتون علاقوں کے نوجوانوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہو گا اور وہ سیاسی اور سماجی تحریک جو ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں مرکزی قومی دھارے میں شامل ہے اس سے باہر دھکیل دی جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں کسی سیاسی یا انسانی حقوق کی مقبول تحریک پر میڈیا کے ذریعے الزامات نہیں لگائے جاتے بلکہ ایسی تحریک کو مذاکرات کی میز پر لانے  کی حتی المقدور کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہ سیاسی اور سماجی سائینس کا مانا ہوا اصول ہے کہ مقبول تحاریک کبھی بھی زور زبردستی طاقت کے دم پر کچلی نہیں جاتیں۔

دوسری جانب اگر پشتون تحفظ موومنٹ کی اعلی قیادت کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کا اندراج کیا گیا تو پہلے سے کمزور ساکھ کی عدلیہ جو ہر دور میں آمریت پر مہر ثبت کرتی آئی ہے اس کی ساکھ مزید کمزور ہو گی اور پی ٹی ایم کے بیانئے کو مزید تقویت ملے گی کہ ریاست ان کے آئینی مطالبات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ ان کو زور زبردستی کچلنا چاہتی ہے۔ اس صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا حسب معمول جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دے رہا ہے۔

اپنے صحافتی فرض کی ادائیگی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے موقف کو تو یہ بوجہ ان دیکھی سینسر شپ وقت نہیں دے رہا لیکن عملی صحافت کے تقاضوں سے نا آشنا کئی ٹی وی اینکرز اور مفادات کے حصول کے لئے صحافت کا پیشہ اختیار کرنے والے کئی بزرگ صحافی بھی اس معاملے میں فریق بنے بیٹھے ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار بن کر پشتون تحفظ موومنٹ کو غدار اور وطن دشمن بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ یہ اسی صحافی طبقے کی جدید نظریاتی نسل ہے جو سقوط ڈھاکہ سے قبل بنگالیوں کو کمزور اور وطن دشمن بنانے پر مصر تھا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بلوچ رہنماؤں کے خلاف بھی زہر افشانی کر کے بلوچستان میں بھی آگ لگانے میں پیش رہا۔ افسوس یہ ہے کہ اس مخصوص گروہ نے محض خوشنودی اور آسائشوں کے لئے صحافت کی قدروں کو نقصان پہنچایا اور وطن عزیز میں منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور آج بھی یہ طبقہ ریاست کو پشتون نوجوانوں کے خلاف صف آرا دیکھنا چاہتا ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر مقتدر قوتوں نے سقوط ڈھاکہ اور بلوچستان میں لگی آگ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا اور شدت پسندی کے زہر سے سماجی و سیاسی ڈھانچوں کی بربادی بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں لا سکی تو پھر شاید ہم آج بھی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مقید ہیں۔ ریاست کے پاس لامحدود وسائل اور قوت ہوا کرتی ہے اور یہ وقتی طور پر بڑی سے بڑی تحریک کو کچلنے کی اہلیت رکھتی ہے لیکنُ سوال یہ ہے کیا قوت کے دم پر ریاست بنگالیوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو پائی؟ کیا طاقت کے استعمال سے بلوچستان میں امن قائم ہونے پایا؟ یہ نئی نسل کے پشتون نوجوان ریاست سے جراحی نہیں بلکہ مسیحائی مانگتے ہیں۔ کیا قباحت ہے کہ اگر ریاست بڑا پن دکھاتے ہوئے از خود راؤ انوار کے خلاف فریق بنے اور اسے اس کے جرائم کی قرار واقعی سزا دے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کروا کر عدالتوں میں پیش کر دے؟

منظور پشتین یا پشتون تحفظ موومنٹ طاقت یا اقتدار کی سیاست نہیں کر رہے اس لئے انہیں سیاسی بساط پر سود و زیاں کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی اس بساط پر ان کے پاس ہارنے کو کچھ موجود ہے اس لئے اس تحریک کو بزور طاقت سے کچلنا نماسب نہیں۔ البتہ گفت و شنید سے بہت سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اگر غداری اور کفر کے فتوے دینے کے جائے تمام ریاستی ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دیں اور دستور کو سب سے مقدم جانیں تو پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریکیں جنم ہی نہیں لیں گی اور نہ ہی ریاستی اداروں کو اپنے خلاف تکلیف دہ نعرے سننے پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).